Blog
Books
Search Hadith

حاملہ خاتون کی عدت وضع حمل ہے، خواہ وہ طلاق یافتہ ہو یا بیوہ، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: اور حاملہ خواتین کی عدت کی مدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کر دیں

۔

۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس اور سیدنا ابوہریرہ سے اس عورت کی عدت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو اوروہ حاملہ ہو، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: دو عدتوں میں سے دور والی عدت ہو گی، جبکہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب وہ بچے کوجنم دے گی تو اس کی عدت ختم ہو جاتی ہے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا: جب سیدہ سبیعہ اسلمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے خاوند کی وفات کے نصف ماہ بعد بچے کو جنم دیا تو اسے دو آدمیوں نے پیغام نکاح بھیجا، ان میں سے ایک نوجوان تھا اور دوسرا ذرا ادھیڑ عمر تھا، اس خاتون کا میلان یہ تھا کہ وہ نوجوان سے نکاح کرے، یہ صورت حال دیکھ کر ادھیڑعمر کہنے لگا کہ یہ تو ابھی عدت سے ہی باہر نہیں ہوئی، دراصل اس عورت کے گھروالے وہاں موجود نہ تھے اور اس بوڑھے کو امید تھی کہ جب اس کے گھروالے آ جائیں گے تو وہ اس ادھیڑ عمر کو ترجیح دیں گے، اس کی بات سن کر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور فتویٰ پوچھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیری عدت ختم ہو چکی ہے،تو جس سے چاہتی ہے، نکاح کر سکتی ہے۔
Haidth Number: 7232
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۷۲۳۲) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، أخرجہ النسائی: ۶/ ۱۹۱ (انظر: ۲۶۷۱۵)

Wazahat

فوائد:…دو عدتوں میں سے دور کی عدت کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ حاملہ کی عدت دو قسم کی ہے: وضع حمل اور چار ماہ دس دن، اب اگر چار ماہ دس دن سے پہلے بچہ جنم دے تو وہ چار ماہ دس دن مکمل کرے اور اگر چار ماہ دس دن کے بعد تک حمل جائے تو پھر عدت وضع حمل ہی ہو گی۔