Blog
Books
Search Hadith

اسلام کے ارکان اور اس کے بڑے بڑے ستونوں کا بیان

۔ (۸۳)۔عَنِ السَّدُوْسِیِّ یَعْنِی ابْنَ الخَصَاصِیَّۃِ ؓ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأُبَایِعَہُ فَاشْتَرَطَ عَلَیَّ شَہَادَۃَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ وَ أَنْ أُقِیْمَ الصَّلَاۃَ وَ أَنْ أُؤَدِّیَ الزَّکَاۃَ وَ أَنْ أَحُجَّ حَجَّۃَ الْاِسُلَامِ وَ أَنْ أَصُوْمَ شَہْرَ رَمَضَانَ وَ أَنْ أُجَاہِدَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَمَّا اثْنَتَانِ فَوَاللّٰہِ مَا أُطِیْقُہُمَا الْجِہَادُ وَ الصَّدَقَۃُ، فَإِنَّہُمْ زَعَمُوْا أَنَّ مَنْ وَلَّی الدُّبُرَ فَقَدْ بَائَ بِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ فَأَخَافُ إِنْ حَضَرَتُ تِلْکَ جَشِعَتْ نَفْسِیْ وَ کَرِہَتِ الْمَوْتَ، وَ الصَّدَقَۃُ فَوَاللّٰہِ مَا لِیْ إِلَّا غُنَیْمَۃٌ وَ عَشْرُ ذَوْدٍ، ہُنَّ رِسْلُ أَہْلِی وَحُمُوْلَتُہُمْ، قَالَ: فَقَبَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَدَہُ ثُمَّ حَرَّکَ یَدَہُ ثُمَّ قَالَ: ((فَـلَا جِہَادَ وَلَا صَدَقَۃَ فَلِمَ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِذًا؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنَا أُبَایِعُکَ، قَالَ: فَبَایَعْتُ عَلَیْہِنَّ کُلِّہِنَّ۔ (مسند أحمد: ۲۲۲۹۸)

سیدنا ابن خصاصیہ سدوسیؓ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیعت کرنے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مجھ پر یہ شرطیں عائد کر دیں: یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور یہ کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حجۃ الاسلام ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اللہ کے راستے میںجہاد کرنا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ جو دو چیزیں جہاد اور زکوۃ ہیں نا، ان کی مجھ میں طاقت نہیں ہے، کیونکہ جہاد کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ جو وہاں سے پیٹھ پھیر جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے ساتھ لوٹتا ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میدانِ جہاد میں میرا نفس گھبرا جائے اور موت کو ناپسند کرنے لگے اور رہا مسئلہ زکوۃ کا، تو اللہ کی قسم ہے کہ میرے پاس تھوڑی سی بکریاں ہیں اور دس اونٹ ہیں، میرے اہل کے لیے دودھ والے اور سواری والے یہی جانور ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے ہاتھ کو بند کیا اور اس کو حرکت دی اور فرمایا: اگر جہاد بھی نہ ہو اور زکوۃ بھی نہ ہو تو پھر تو جنت میں کیسے داخل ہو گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ٹھیک ہے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیعت کرتا ہوں، پھر میں نے ان سب امور پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیعت کی۔
Haidth Number: 83
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۳) تخریج: رجالہ ثقات رجال الشیخین غیر ابی المثنی العبدی، فلم یروِ عنہ غیر جبلۃ بن سُحیم، وذکرہ ابن حبان والعجلی فی الثقات۔ أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۱۲۳۳، وفی الاوسط : ۱۱۴۸، والحاکم: ۲/ ۷۹، والبیھقی: ۹/ ۲۰(انظر: ۲۱۹۵۲)

Wazahat

فوائد: …اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ حکمت و دانائی اور مزاج شناسی سے بدرجۂ اتم متصف تھے، اِس موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اِس آدمی کی جہاد اور زکوۃ کو مستثنی کر دینے کی شرط قبول نہیں کی، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اِس آدمی کے مزاج سے یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر اس کو ان چیزوں کی رخصت نہ دی گئی تو پھر بھی یہ اسلام کو قبول کر لے گا، جبکہ بوقت ِ بیعت بعض امورِ اسلام کو مصلحۃً مستثنی کر دینا بھی درست ہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر ؓ سے ثقیف قبیلہ کی بیعت کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا: اِشْتَرَطَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ أَنْ لَّا صَدَقَۃَ عَلَیْھَا وَلَاجِھَادَ۔ قَالَ: وَأَخْبَرَنِیْ جَابِرٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ قَالَ: ((سَیَتَصَدَّقُوْنَ وَیُجَاھِدُوْنَ إِذَا أَسْلَمُوْا۔)) … اس قبیلے نے (بیعت کرتے وقت) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پر یہ شرط عائد کی تھی کہ ان پر صدقہ ہو گا نہ جہاد۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے فرمایا: عنقریب جب یہ لوگ (پکے) مسلمان ہو جائیں گے تو صدقہ بھی دیں گیااور جہاد بھی کریں گے۔ (ابوداود: ۲/ ۴۲، صحیحہ: ۱۸۸۸) یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی حکمت و دانائی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر کوئی قبیلہ یا فرد مشرف باسلام تو ہونا چاہتا ہے، لیکن اسلام کے ایک دو اجزا یا شقوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، تو حکمت یہ ہے کہ دونوں گھروں کی مصلحت کا خیال رکھتے ہوئے اس امید پر اس کی شرطیں قبول کر لی جائیں کہ کچھ عرصہ تک ایمان و ایقان میں پختہ ہو کر اسلام کے ہر جزو اور شقّ کو تسلیم کر لے گا، مبلغینِ اسلام کا حکیم و دانا ہونا انتہائی ضروری ہے۔