Blog
Books
Search Hadith

بوریت کے ڈر سے قراء ت ِ قرآن میںمیانہ روی اختیار کرنے کا، نیز اس چیز کا بیان کہ کتنے دنوں میں قرآن مجید کی تکمیل کی جائے

۔ (۸۳۷۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: جَمَعْتُ الْقُرْآنَ فَقَرَأْتُ بِہِ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((إِنِّی أَ خْشٰی أَ نْ یَطُولَ عَلَیْکَ زَمَانٌ أَ نْ تَمَلَّ، اِقْرَأْہُ فِی کُلِّ شَہْرٍ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی، أَ سْتَمْتِعُ مِنْ قُوَّتِی وَشَبَابِی، قَالَ: ((اقْرَأْہُ فِی کُلِّ عِشْرِینَ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی أَ سْتَمْتِعُ مِنْ قُوَّتِی وَشَبَابِی، قَالَ: ((اِقْرَأْہُ فِی کُلِّ عَشْرٍ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِی وَشَبَابِی، قَالَ: ((اِقْرَأْہُ فِی کُلِّ سَبْعٍ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَعْنِی أَ سْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِی وَشَبَابِی فَأَ بٰی۔ زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ((فَاقْرَئْ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ لَا تَزِیْدَنَّ)) (مسند احمد: ۶۵۱۶)

۔ (دوسری سند )سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس طرح بھی مروی ہے کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن ختم کیا کرو فرمایا ہر ماہ میں ختم کرو میں نے کہا مجھے زیادہ قوت ہے پچیس دنوں میں پڑھ لو میں نے کہا مجھ میں زیادہ قوت ہے کہا بیس دن میں پڑھ لو، میں نے کہا مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے فرمایا پندہ دنوں میں قرآن ختم کرلیا کرو۔ میں نے کہا مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے فرمایا سات دنوں میں پڑھ لیا کرو۔ میں نے کہا مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تین دن سے کم میں پڑھے گا اس نے اسے سمجھا نہیں۔
Haidth Number: 8373
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۳۷۳) تخریج: أخرجہ البخاری: ۱۹۸۰، ومسلم: ۱۱۵۹ (انظر: ۶۵۱۶)

Wazahat

فوائد:… ابو داود کی روایت کے مطابق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے چالیس دنوں میں قرآن مجید کی تکمیل کرنے کا حکم دیا، اس روایت سے معلوم ہوا کہ ہر چالیس دنوں میں کم از کم ایک بار قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرنی چاہیے۔ جیسا کہ اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں: ((وَلَانُحِبُّ لِلرَّجُلِ اَنْ یَاْتِیَ عَلَیْہِ اَکْثَرُ مِنْ اَرْبَعِیْنَیَوْمًا وَلَمْ یَقْرَأِ الْقُرْآنَ بِھٰذَ الْحَدِیْثِ۔)) ہم اس حدیث کی روشنی میں کسی آدمی کے لیےیہ پسند نہیں کرتے کہ چالیس دن گزر جائیں اور اس نے مکمل قرآن مجید کی تلاوت نہ کی ہو۔ (ترمذی) امام احمد، امام اسحق بن راہویہ اور امام ابوعبید وغیرہ کا یہی خیال ہے کہ تین دنوں سے پہلے قرآن مجید کی تکمیل نہیں کرنی چاہیے، لیکن کئی سلف صالحین سے اس سے کم مدت میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرنا ثابت ہے۔ امام نووی نے کہا: راجح بات یہ ہے کہ اس میں شخصیات کا اعتبار کیا جائے گا، جو آدمی قرآن مجید کو سمجھتا ہواور دورانِ تلاوت اس پر غور و فکر کرتا ہو، اسی طرح جو آدمی حصولِ علم اور دین کے دوسرے اہم امور اور مسلمانوں کی عام مصلحتوں میں مصروف ہو، اس کے لیے مستحبّ یہ ہے کہ وہ اتنی تلاوت کر لیا کرے، جس میں غور و فکر اور تدبر برقرار ہے اور اس کے کام میں بھی حرج نہ ہو، لیکن جس آدمی کے ایسے مشاغل نہ ہوں، اس کو حسب ِ امکان کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے، بس ایک چیز کا خیال رکھے کہ اتنی زیادہ تلاوت نہ کرے کہ اکتا جائے۔ بہرحال ہمارا نظریہیہ ہے کہ تین دنوں سے کم مدت میں قرآن مجید کی تکمیل نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بڑی رغبت کے ساتھ عبادت کرنے والے تھے، وہ ہر رات کو قرآن مجید مکمل کرتے تھے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے دنوں کی حد مقرر کی توا نھوں نے آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اصرار کے ساتھ مزید دن کم کرنے کی درخواست بھی کی تھی، اس کے باوجود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہی فرمایا کہ جو آدمی اس کتاب کو تین دنوں سے کم مدت میںپڑھ لے گا، وہ اس کو نہیں سمجھے گا۔ جہاں اس حدیث میں قرآن مجید کی تلاوت کی تکمیل کے لیے مدت کا تعین کر دیا ہے، وہاں تین ایام سے کم ختم کرنے کی وجہ سے اس چیز کی وضاحت ہو رہی ہے کہ تلاوت ِ قرآن سے مقصود قرآن فہمی ہے۔ لیکن عصر حاضر میںبالخصوص عجموں میں فہمِ قرآن کا جنازہ اٹھ چکا ہے، ہر بندہ خود بھی بغیر سوچے سمجھے قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہے اور اپنی اولاد کو اسی انداز کا عادی بنا رہا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید ایسے سنہری قوانین و ضوابط کا مجموعہ ہے، جن کی روشنی میں زندگی کو بہترین سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے اور قوانین کو بغیر سوچے سمجھے پڑھا نہیں جاتا، بلکہ ان کو سمجھ کر ان پر عمل کیا جاتا ہے۔قرآن مجید کو تین ایام سے کم مدت میں ختم کرنے سے اس لیے روکا گیا کہ قاری بغیر سمجھے تلاوت کرتا جائے گا، لیکن افسوس کہ ہم تین نہیں، تیسیا تین سو دنوں میں بھی ختم کر لیں، پھر بھی ہمیں سمجھ نہیں آتا۔