Blog
Books
Search Hadith

قرآن اور اوراد کے حزب مقرر کرنا

۔ (۸۴۰۱)۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَوْسٍ الثَّقَفِیِّ، عَنْ جَدِّہٖاَوْسِبْنِحُذَیْفَۃَ قَالَ: کُنْتُ فِی الْوَفْدِ الَّذِیْنَ اَتَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَسْلَمُوا مِنْ ثَقِیفٍ مِنْ بَنِی مَالِکٍ، أَ نْزَلَنَا فِی قُبَّۃٍ لَہُ، فَکَانَ یَخْتَلِفُ إِلَیْنَا بَیْنَ بُیُوتِہِ وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ، فَإِذَا صَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ انْصَرَفَ إِلَیْنَا وَلَا نَبْرَحُ حَتّٰییُحَدِّثَنَا وَیَشْتَکِیَ قُرَیْشًا وَیَشْتَکِیَ أَ ہْلَ مَکَّۃَ ثُمَّ یَقُولُ: ((لَا سَوَائَ کُنَّا بِمَکَّۃَ مُسْتَذَلِّینَ وَمُسْتَضْعَفِینَ، فَلَمَّا خَرَجْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ کَانَتْ سِجَالُ الْحَرْبِ عَلَیْنَا وَلَنَا۔)) فَمَکَثَ عَنَّا لَیْلَۃً لَمْ یَأْتِنَا حَتّٰی طَالَ ذَلِکَ عَلَیْنَا بَعْدَ الْعِشَائِ قَالَ: قُلْنَا: مَا أَ مْکَثَکَ عَنَّا یَا رَسُولَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((طَرَأَ عَلَیَّ حِزْبٌ مِنْ الْقُرْآنِ، فَأَ رَدْتُ أَ نْ لَا أَ خْرُجَ حَتّٰی أَقْضِیَہُ۔)) قَالَ: فَسَأَ لْنَا أَ صْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَصْبَحْنَا، قَالَ: قُلْنَا: کَیْفَ تُحَزِّبُونَ الْقُرْآنَ؟ قَالُوْا: نُحَزِّبُہُ ثَلَاثَ سُوَرٍ، وَخَمْسَ سُوَرٍ، وَسَبْعَ سُوَرٍ، وَتِسْعَ سُوَرٍ، وَإِحْدٰی عَشْرَۃَ سُورَۃً، وَثَلَاثَ عَشْرَۃَ سُورَۃً، وَحِزْبَ الْمُفَصَّلِ مِنْ قَافْ حَتّٰییُخْتَمَ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۳۰)

۔ سیدنا اوس بن حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں اس وفد میں موجود تھا، جو ثقیف میں سے بنو مالک قبیلہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اسلام قبول کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک خیمہ میں اتارا، جب آپ اپنے گھرسے مسجد کی طرف آتے جاتے تو ہمارے پاس سے گزرتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عشاء سے فارغ ہوتے تو ہمارے پاس تشریف لاتے اور کافی دیر تک ہم سے باتیں کرتے، قریش اور اہل مکہ کی شکایات کا ذکر کرتے اور فرماتے: اب برابری نہیں رہی، وقت تبدیل ہو گیا ہے، مکہ میں ہم رل گئے تھے اور ناتواں تھے اور جب ہمیں مکہ سے مدینہ منورہ کی جانب نکال دیا گیا تو جنگ کا ڈول ہماے خلاف بھیبھرا گیا اور ہارے حق میں بھی بھرا گیا (یعنی مقابلہ برابر رہا)۔ ایک رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف نہ لائے، عشاء کے بعد کافی دیر ہو گئی، پھر جب تشریف لائے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے لئے ہمارے پاس نہ آنے کی کیا وجہ تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا قرآن کا حزب (رہ گیا تھا)، بس وہ مجھ پر غالب آگیا اور میں نے بھی ارادہ کیا کہ اس کی تکمیل کے بغیر نہیں نکلوں گا۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ سے پوچھا: تم قرآن مجید کے کیسے حصے مقرر کرتے ہو اور اجزاء بناتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم اس طرح قرآن مجید کے حصے مقرر کرتے ہیں: تین سورتیں، پانچ سورتیں، سات سورتیں، نو سورتیں، گیارہ سورتیں، تیرہ سورتیں اور سورۂ قاف سے آخر تک کا مفصل حصہ، اس طرح قرآن مجید کی تکمیل ہو جاتی ہے۔
Haidth Number: 8401
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۴۰۱) تخریج: اسنادہ ضعیف لضعف عبد اللہ بن عبد الرحمن الطائفی، وعثمانُ بن عبد اللہ الثقفی، قال ابن حجر: مقبول ۔ أخرجہ ابوداود: ۱۳۹۳، وابن ماجہ: ۱۳۴۵ (انظر: ۱۹۰۲۱)

Wazahat

فوائد:… سات حزب مقرر کرنے سے مراد یہ ہے کہ صحابۂ کرام سات دنوں میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کر لیتے تھے، ان سات احزاب کی تفصیلیہ ہے: تین سورتیں:سورۂ بقرہ سے سورۂ نساء تک پانچ سورتیں:سورۂ مائدہ سے سورۂ توبہ تک سات سورتیں:سورۂ یونس سے سورۂ نحل تک نو سورتیں:سورۂ اسراء سے سورۂ فرقان تک گیارہ سورتیں:سورۂ شعراء سے سورۂ یس تک تیرہ سورتیں: سورۂ صافات سے سورۂ حجرات تک اس کے بعد سورۂ ق سے قرآن کے آخر تک کا حصہ مفصل کہتا ہے۔ قرآن مجید کی سات منزلوںکا تعین اسی ترتیب سے کیا گیا ہے، سات دنوں میں قرآن مجید کی تکمیل کے لیےیہ اچھی اور معتدل ترتیب ہے، مہینے میں ختم کرنے کے لیے قرآن مجید کے تیس پارے بنائے گئے ہیں، تلاوت کرنے والا اس سے کم یا زیادہ کی مقدار کا تعین بھی کر سکتا ہے، بہرحال کم از کم چالیس دنوںمیں ایک بار قرآن مجید کی تکمیل ہو جانی چاہیے، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے سب سے پہلے چالیس دنوں کا تعین کیا تھا۔ یہ روایت تو ضعیف ہے، لیکن تلاوت اور اذکارو اوراد کی مقدار کا تعین کیا جا سکتاہے، جیسا کہ اگلے باب کی حدیث سے معلوم ہوتاہے۔