Blog
Books
Search Hadith

مصحف عثمانی کے بارے میں سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے

۔ (۸۴۰۹)۔ عَنْ خُمَیْرِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أُمِرَ بِالْمَصَاحِفِ أَ نْ تُغَیَّرَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَ نْ یَغُلَّ مُصْحَفَہُ فَلْیَغُلَّہُ، فَإِنَّ مَنْ غَلَّ شَیْئًا جَائَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: قَرَأْتُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبْعِینَ سُورَۃً أَ فَأَ تْرُکُ مَا أَخَذْتُ مِنْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ) قَرَأَ مِنْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبْعِیْنَ سُوْرَۃً وَاِنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ لَہٗذُؤَابَۃٌ فِی الْکِتَابِ۔ (مسند احمد: ۳۹۲۹)

۔ خمیر بن مالک کہتے ہیں: جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عہد میں مصاحف کو تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے جو آدمی اپنے مصحف کی خیانت کر سکتا ہے، وہ کر لے، کیونکہ جو آدمی جس چیز کی خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن اس کو اپنے ساتھ لائے گا، پھر انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے ستر (۷۰) سورتیں سنی ہیں، کیا میں انہیں چھوڑ دوں۔ایک روایت میں ہے: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے اس وقت ستر (۷۰) سورتیں سن لی تھیں، جب زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لکھنے کے معاملے میں ابھی تک بچہ تھا۔
Haidth Number: 8409
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۴۰۹) تخریج: اسنادہ ضعیف، خمیر بن مالک، لو یوثقہ غیر ابن حبان، وانفرد بالروایۃ عنہ ابو اسحاق السبیعی۔ أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۸۴۳۴، وابوداود فی المصاحف : ص ۱۵ (انظر:۳۹۲۹)

Wazahat

فوائد:… جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امت کو اختلاف سے بچانے کے لیے قرآن مجید کی صرف ایک قراء ت کو برقرار رکھنے اور باقی قراء توں کو جلا دینے کا حکم دیا تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان سے متفق نہ ہوئے، انھوں نے سیدنا زید کی بات اس وجہ سے کی کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جمعِ قرآن کے سلسلے میں زیادہ اعتماد ان پر کیا تھا، ایک روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بعد میں اپنی رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ ذُؤَابَۃ کے معانی بالوں کی لٹ کے ہیں، عرب بچوں کے بالوں کے ایک دو لٹیں بنا دیتے تھے، اس سے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا مقصد سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بچپن ظاہر کرنا تھا۔ شقیق کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی: {وَمَنْ یَغْلُلْیَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔} (جوآدمی خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو لائے گا۔) اور پھر انھوں نے کہا: عَلٰی قِرَأَۃِ مَنْ تَأْمُرُونِی أَ نْ أَ قْرَأَ ؟ فَلَقَدْ قَرَأْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِضْعًا وَسَبْعِینَ سُورَۃً، وَلَقَدْ عَلِمَ أَ صْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَ نِّی أَعْلَمُہُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَلَوْ أَعْلَمُ أَ نَّ أَحَدًا أَعْلَمُ مِنِّی لَرَحَلْتُ إِلَیْہِ۔ … تم مجھے کس کی قراء ت کا اہتمام کرنے کا حکم دیتے ہو؟ میں نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے چھہتر ستتر سورتیں پڑھی تھیں اور صحابۂ کرام بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ تعالی کی کتاب کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں، اگر مجھے کسی کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے تو میں اس کی طرف رخت ِ سفر باندھوں گا۔ (صحیح مسلم: ۲۴۶۲) حافظ ابن حجر نے (فتح الباری: ۹/ ۴۹) میںکہا: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خیانت کرنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کا نسخہ چھپا لیا جائے تاکہ اس کو نکال کر ختم نہ کر دیا جائے، معلوم ایسے ہوتا ہے کہ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے متفق نہیں تھے، یا وہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر انکار تو نہیں کرنا چاہتے تھے، البتہ ان کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اس قراء ت کو برقرار رکھیں، جس میں ان کی خاص خوبی پائی جاتی تھی، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا مقصد پورا نہیں ہو رہا اور کسی وجۂ ترجیح کے بغیر سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قراء ت کو ترجیح دی جا رہی ہے تو انھوں نے اسی قراء ت پر استمرار کو پسند کیا اور ابن ابی داود نے یہ ترجمۃ الباب قائم کیا: بَابُ رِضَی بْنِ مَسْعُوْدٍ بَعْدَ ذَلِکَ بِمَا صَنَعَ عُثْمَانُ (سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کیے پر راضی ہو جانے کا بیان) لیکن پھر انھوں نے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی، جو اس سرخی کے موافق ہو۔ شیخ احمد شاکر نے کہا: جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اختلاف کے ڈر سے لوگوں کو مصحف الامام پر متفق ہو جانے کا حکم دیا تو سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غصے میں آ گئے، جبکہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اور انھوں نے خیانت والی مذکورہ بالا آیت کی تاویل کرنے میں خطا کی ہے، کیونکہیہ آیت خیانتیا تقسیم سے قبل مال غنیمت سے کوئی چیز لے لینے کے بارے میں ہے (جو کہ قابل مذمت چیز ہے)۔ دراصل سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس آیت کو سمجھتے تھے، ان کا مقصد اور تھا۔