Blog
Books
Search Hadith

قراء توں کے بارے میں عام روایات اور اس مسئلہ میں صحابہ کے اختلاف کا بیان

۔ (۸۴۱۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَ بِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: لَقَدْ جَلَسْتُ أَ نَا وَأَ خِی مَجْلِسًا، مَا أُحِبُّ أَ نَّ لِی بِہِ حُمْرَ النَّعَمِ، أَ قْبَلْتُ أَ نَا وَأَ خِی وَإِذَا مَشْیَخَۃٌ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جُلُوسٌ عِنْدَ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِہِ، فَکَرِہْنَا أَ نْ نُفَرِّقَ بَیْنَہُمْ، فَجَلَسْنَا حَجْرَۃً إِذْ ذَکَرُوْا آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ فَتَمَارَوْا فِیہَا حَتَّی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُغْضَبًا قَدْ احْمَرَّ وَجْہُہُ یَرْمِیہِمْ بِالتُّرَابِ، وَیَقُولُ: ((مَہْلًا یَا قَوْمِ! بِہٰذَا أُہْلِکَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِکُمْ بِاخْتِلَافِہِمْ عَلٰی أَ نْبِیَائِہِمْ، وَضَرْبِہِمْ الْکُتُبَ بَعْضَہَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ یَنْزِلْیُکَذِّبُ بَعْضُہُ بَعْضًا، بَلْ یُصَدِّقُ بَعْضُہُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْہُ فَاعْمَلُوْا بِہِ، وَمَا جَہِلْتُمْ مِنْہُ فَرُدُّوہُ إِلَی عَالِمِہِ۔)) (مسند احمد: ۶۷۰۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص علیہ السلام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے اور میرے بھائی کے مابین ایک مجلس ہوئی، اس میں بیٹھنامیرے لئے سرخ اونٹوںسے بھی زیادہ قیمتی ہے، تفصیلیہ ہے کہ میں اور میرا بھائی آئے اور بزرگ صحابہ کی ایک جماعت کو پایا کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے ان میں تفریق ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور ایک کونے میں بیٹھ گئے، انہوں نے ایک آیت کا ذکر کیااور پھر اس میں جھگڑنا کرنے لگے، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آ گئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصہ کی حالت میں تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان صحابہ پر مٹی پھینکی اور فرمایا: لوگو! رک جائو، تم میں سے پہلے والی امتیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں،انہوں نے اپنے انبیاء پر اختلاف کیا اور کتاب کے بعض حصے کو بعض سے ٹکرایا، بیشک قرآن مجید اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا بعض بعض کی تکذیب کر رہا ہو، بلکہ اس کا بعض بعض کی تصدیق کرتا ہے، پس جس حصے کا تمہیں علم ہو جائے، اس پر عمل کرو اور جس حصے کا علم نہ ہو سکے، اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو۔
Haidth Number: 8417
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۴۱۷) تخریج: صحیح (انظر: ۶۷۰۲)

Wazahat

فوائد:… قرآن مجید میں ممنوعہ جھگڑے سے کیا مراد ہے؟ درج ذیل بحث پر توجہ کریں: کتنی قابل غور بات ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس مجلس کو ختم کر دینے کا حکم دیا ہے، جس میں اختلافِ قرآن پر بحث شروع ہونے لگے،سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِقْرَؤُوْا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَیْہِ قُلُوْبُکُمْ، فَاِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُوْمُوْا عَنْہُ۔)) … قرآن مجید اس وقت تک پڑھا کرو، جب تک تمھارے دل اس (کے معانی) پر متفق رہیں، جب تم میں (اس کے مفاہیم سمجھنے میں) اختلاف پڑ جائے تو کھڑے ہو جا یاکرو۔ (بخاری، مسلم) یعنی اس مجلس میں بیٹھنا ہی منع ہے، جو قرآن مجید میں اختلاف کرنے پر مشتمل ہو۔ لیکن اس کتاب میں جھگڑا کرنے سے مراد کیا ہے؟ شارح ابوداود علامہ عظیم آبادی نے کہا: قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں شک کرنا، یا اس موضوع پر غور و خوض کرنا کہ یہ کتاب محدَث ہے یا قدیم،یا متشابہ آیات میں مجادلانہ انداز میں بحث مباحثہ کرنا۔ ان سب امور کا نتیجہ انکار اور کفر کی صورت میں نکلتا ہے۔ یا قرآن مجید کی سات قراء ات پر مناظرہ کرنا اور کسی ایک قراء ت کو حق تسلیم کر لینا اوردوسری کو باطل یا تقدیر والیآیات پر غیر ضروری بحث کرنا یا ان آیات کو موضوعِ بحث بنا کر مضامینِ قرآن میں ٹکراؤ پیدا کرنا، جن کے معانی میں ظاہری طورپر تضاد پایا جاتا ہے۔ (عون المعبود: ۴۶۰۳ کے تحت، مفہوم پیش کیا گیا) امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ابن عبد البر نے سیدنا نواس بن سمعان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث کے بعد کہا: اس کا معنییہ ہے کہ دو افراد ایک آیت کے بارے میں مجادلانہ گفتگو کریں، نتیجتاً ایک اس کا انکار کر دے، یا اس کو ردّ کرے یا اس کے بارے میں شک میں پڑ جائے۔ ایسا جھگڑا کرنا کفر ہے۔ (صحیحہ: ۳۴۴۷) ملا علی قاری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: جھگڑنے سے مراد ایک دوسرے کا ردّ کرنا ہے، مثلا ایک آدمی ایک آیت سے ایک استدلال پیش کرتا ہے، جبکہ دوسرا آدمی کسی دوسری آیت سے اس کے الٹ استدلال کر کے اس پر ٹوٹ پڑتا ہے، حالانکہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو چاہیے کہ ایسی آیات میں جمع و تطبیق کی کوئی صورت پیدا کرے، تاکہ یہ نقطہ واضح ہو جائے کہ قرآن کا بعض بعض کی تصدیق کرتا ہے، اگر وہ مختلف آیات میں توافق نہ دے سکے تو اس کو اپنی سمجھ کی کوتاہی سمجھے اور ان آیات کو اللہ تعالی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف منسوب کر دے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے: {فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَئْیٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ} (سورۂ نسائ: ۵۹) پھر انھوں نے ایک مثال دی: ارشادِ باری تعالی ہے: {قُلْ کُلُّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ} … کہہ دیجئے کہ ہر چیز اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ جبکہ دوسرے مقام پر فرمایا: {وَمَا اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ} (سورۂ نسائ: ۹۷) تجھے جو بھلائی ملتی ہے، وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اور جو برائی پہنچتی ہے تو وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔ تناقض:… پہلی آیت میں ہر چیز کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا اور دوسری آیت میں برائی کو بندے کی طرف منسوب کیا گیا۔ (اگر دوسری آیات، احادیث اور اجماعِ امت کو دیکھا جائے تو سب سے بہترین جمع و تطبیقیہ ہے کہ برائی بھی اللہ تعالی کی مشیت سے ہوتی ہے، لیکنیہ برائی نفس کے گناہ کی عقوبت یا اس کا بدلہ ہوتی ہے، اس لیے اس کو نفس کی طرف منسوب کیا گیا،یعنییہ نفس کی غلطیوں کا نتیجہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے دوسرے مقام پر فرمایا: {وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ} (سورۂ شوری: ۳۰) تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے، اوربہت سے گناہ تو (اللہ) معاف ہی فرما دیتا ہے۔ ) لیکن اگر تقدیر کا منکر اس بات پر ڈٹ جائے کہ برائی کا خالق انسان خود ہے اور اس قسم کی آیات کو انکارِ تقدیر پر بطورِ دلیل پیش کرے، تو یہی مجادلہ ہو گا، جس سے منع کیا گیا۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۱/ ۴۹۳، مفہوم لکھا گیا، بریکٹ والا پیراگراف راقم الحروف کی طرف سے لکھا گیا) اگر کوئی مسلمان بعض آیات کو نہ سمجھ پا رہا ہو تو وہ درج ذیل حدیث کو مدنظر رکھے۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں کو سنا، وہ قرآن میں اختلاف کر رہے تھے اور ایک دوسرے کا ردّ کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِھٰذَا: ضَرَبُوْا کِتَابَ اللّٰہِ بَعْضَہٗبِبَعْضٍ،وَاِنَّمَانَزَلَکِتَابُاللّٰہِیُصَدِّقُ بَعْضُہٗبَعْضًا،فَلَاتُکَذِّبُوْابَعْضَہٗبِبَعْضٍ،فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْہُ فَقُوْلُوْا، وَمَا جَھِلْتُمْ فَکِلُوْہُ اِلٰی عَالِمِہٖ۔)) … تمسے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہو گئے کہ وہ کتاب اللہ کے بعض حصے کو اس کے دوسرے حصے سے ٹکراتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی کی کتاب اس طرح نازل ہوئی کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرتا ہے، پس تم اس کے بعض حصے کی وجہ سے اس کے بعض حصے کونہ جھٹلاؤ۔ جتنا تم جان لو وہ بیان کرو، اور جو نہ جان سکو اس کو اس کے عالم کی طرف سپرد کر دو۔ (احمد: ۶۷۴۱، ابن ماجہ)