Blog
Books
Search Hadith

قرآن مجید کے ساتھ جھگڑا کرنے یا اس کی تاویل کرنے یا بغیر علم کے اپنی رائے کے ساتھ اس کی تفسیر کرنے والے کی وعید کا بیان

۔ (۸۴۶۷)۔ عَنْ أَ بِی أُمَامَۃَ الْبَاھِلِّی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ (وَفِی رِوَایَۃٍ إِذَا دَخَلَ فِی الصَّلَاۃِ مِنَ اللَّیْلِ) کَبَّرَ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ أَ عُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ۔ (مسند احمد: ۲۲۵۳۲)

۔ سیدناعقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا میں اپنی امت پر دو چیزوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔ قرآن مجید اوردودھ، لوگ ہریالی، سبزہ تلاش کریں گے خواہشات کی پیروی کریں گے نمازیں چھوڑ دیں گے اورقرآن مجید منافق قسم کے لوگ سیکھیں گے اور اس کو ذریعہ بنا کر ایمانداروں سے جھگڑیں گے۔
Haidth Number: 8467
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۴۶۷) حسن لغیرہ، وھذا اسناد ضعیف لابھام الراوی لہ عن ابی امامۃ (انظر: ۲۲۱۷۷، ۲۲۱۷۹)۔

Wazahat

فوائد:… امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ابن عبد البر نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا: باب فیمن تأول القرآن او تدبرہ وھو جاھل بالسنۃ (اس شخص کے بیان میں، جو قرآن کی تاویل کرتا ہے یا اس میں غور و خوض کرتا ہے، جبکہ وہ سنت سے جاہل ہے) پھر انھوں نے کہا: تمام اہل بدعت نے سنتوں سے اعراض کیا اور قرآن مجید کی وہ تاویل بیان کی، جو سنتوں میں پیش کی گئی تفسیر کے مخالف ہے، پس وہ خود بھی گمراہ ہو گئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کر دیا۔ ہم اللہ تعالی کی رسوائی سے پناہ چاہتے ہیں اور اس سے توفیق اور عصمت و سا لمیت کا سوال کرتے ہیں۔ میں (البانی) کہتا ہوں: ان بدعتیوں کی گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے اس فرمان سے غافل ہیں، جس میں اللہ تعالی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا منصب بیان کرتے ہوئے فرمایا: {وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْیَتَفَکَّرُوْنَ} (سورۂ نحل: ۴۴) … اور ہم نے یہ ذکر (کتاب) آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا، آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔ (صحیحہ: ۲۷۷۸) کتنے تعجب کی بات ہے کہ آج کل مخصوص فقہ کے دعویدار لوگ قرآن مجید کی آیات کا سہارا لے کر احادیث کو ردّ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! جس ہستی پر یہ کتاب ِ عظیم نازل ہوئی، جس شخصیت کو تشریحِ قرآن کا عہدہ سونپا گیا، اس کے فرمودات ِ عالیہ کا قرآن سے ٹکراؤ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ احادیث ِ نبویہ سے دوری، خواہش پرستی، مخصوص مسلک کی بے جا طرفداری اور اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ مزید اسی کتاب کے عنوان حدیث نبوی بھی حجت ہے کا مطالعہ کریں۔ رہا مسئلہ کہ دودھ کی وجہ سے ہلاکت کا، تو کیایہ درست ہو گا کہ دودھ سے مراد صرف (۱) دودھ ہی لیا جائے یا (۲) اس کی تمام مصنوعات، یایہ کہا جائے کہ (۳)دودھ کو بطور مثال ذکر کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ لوگ ماکولات و مشروبات کے پیچھے پڑ جائیں گے؟ اگر دودھ سے دودھ ہی مراد لیا جائے، تو ممکن ہے کہ ماضی میں ایسے لوگ رہے ہوں جنھوں نے دودھ کی وجہ سے مساجد سے بیزاری کا اظہار کیا ہو یا پھر مستقبل میں ایسے لوگوں کا وجود پایا جائے گا۔ اگر عصر حاضر کے لوگوں کے کردار پر نگاہ ڈالی جائے تو تیسرا معنی زیادہ مناسب معلوم ہو رہا ہے، کیونکہ لوگ ہوٹلوں، بالخصوص آبادی سے دور طعام گاہوں، آئس کریم مرکزوں اور کھیر گاہوں غرضیکہ زبان کے چسقوں اور دولت کی نمائش میں پڑ کر نماز اور جمعہ سے غافل ہو کر رہ گئے ہیں، ہر ایک مالدار کو بڑے بڑے ہوٹلوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کا علم ہے، جس کا وہ لحاظ بھی کرتا ہے، لیکن وہ جاہل ہو گا تو پانچ نمازوں کے اوقات سے، خطبۂ جمعہ کی ابتدا کے وقت سے اور ان گھڑیوں کے تقاضے پورے کرنے سے۔ مساجد کے قریب واقع ہوٹلوں میں دودھ سوڈے کے بہانے آدھی آدھی رات تک بیٹھیں رہیں گے، لیکن نمازِ عشا پڑھنے کی توفیق نہیں ہو گی۔ جنگلوں کی طرف نکل جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چراگاہوں میں جا کر دودھ تلاش کیا جائے۔