Blog
Books
Search Hadith

قرات سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھنے اور اس کی فضیلت کا بیان

۔ (۸۴۷۲)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ أَ نَّہَا سُئِلَتْ عَنْ قِرَائَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: کَانَ یَقْطَعُ قِرَائَتَہٗآیَۃً آیَۃً، {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔} (مسند احمد: ۲۷۱۱۸)

۔ سیدنا ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک ایک آیت پر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے :{بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔} (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک ایک آیت پر ٹھہر تے تھے)۔
Haidth Number: 8472
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۴۷۲) تخریج: صحیح لغیرہ ۔ أخرجہ ابوداود: ۴۰۰۱، والترمذی: ۲۹۲۷ (انظر: ۲۶۵۸۳)

Wazahat

فوائد:… سورت سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا حکم کیا ہے؟ درج ذیل بحث پر غور کریں۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلَحْمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} کی تلاوت کرتے اور ایک ایک حرف کو واضح کر کے پڑھتے۔ (مستدرک حاکم: ۸۴۷)سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِذَا قَرَأْتُمْ {اَلَحْمْدُ لِلّٰہِ} فَاقْرَؤٗا {بِسْمِاللّٰہِالرَّحْمٰنِالرَّحِیْمِ} اِنَّہَا اُمُّ الْقُرْآنِ، وَاُمُّ الْکِتَابِ، وَالسَّبْعُ الْمَثَانِیْ، وَ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} اِحْدَاھَا۔۔)) یعنی جب تم {اَلَحْمْدُ لِلّٰہِ} پڑھو تو {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}بھی پڑھو، یہ (سورۂ فاتحہ) ام القرآن، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی (یعنی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں) اور {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}اس کی ایک آیت ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: ۱۱۸۳، بحوالہ دارقطنی: ۱۱۸، بیہقی: ۲/۴۵، دیلمی: ۱/۱/۷۰) سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مدینہ منورہ میں نماز پڑھائی، بآواز بلند قراء ت کی، اور سورۂ فاتحہ سے قبل {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}پڑھی، لیکن (فاتحہ کے بعد والی) سورت کے ساتھ{بِسْمِ اللّٰہِ …} نہ پڑھی، جب سیّدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سلام پھیرا تو ہر طرف سے مہاجرین اور انصار (اعتراض کرنے کے لیے) بول اٹھے اور کہا: اے معاویہ! آپ نے نماز میں سے کچھ چوری کر لیا ہے (کہ دوسری سورت کے ساتھ بسم اللہ نہیں پڑھی) یا بھول گئے ہیں؟ (سیّدنا امیرمعاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمجھ گئے اور)اس واقعہ کے بعد جب نماز پڑھائی تو فاتحہ کے بعدوالی سورت کے ساتھ بھی {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}پڑھی اور سجدہ کے لیے گرتے وقت اللہ اکبر کہا۔ (مستدرک حاکم: ۸۵۱) نعیم مجمر کہتے ہیں: صَلَّیْتُ وَرَائَ أَ بِیْ ھُرَیْرَۃَ فَقَرَأَ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتّٰی اِذَا بَلَغَ {غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ} فَقَالَ: آمِیْن، فَقَالَ النَّاسُ: آمِیْن، وَیَقُوْلُ کُلَّمَا سَجَدَ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَاِذَا قَامَ مِنَ الْجُلُوْسِ فِیْ الْاِثْنَتَیْنِ قَالَ: اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَاِذَا سَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ! اِنِّیْ لَاَشْبَھُکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (سنن نسائی: ۹۰۶، صحیح ابن خزیمہ: ۱/ ۲۵۱، شرح معانی الاثار: ۱/ ۱۳۷) یعنی: میں نے سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھی، انھوں نے {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑھی، پھر فاتحہ شریف کی تلاوت کی، جب وہ {غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ}تک پہنچے تو انھوں نے آمِین کہی اور لوگوں نے بھی آمِین کہی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اسی طرح جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ جب انھوں نے سلام پھیرا تو کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔امام ترمذی نے کہا: سیّدنا ابو بکر، سیّدنا عمر، سیّدنا عثمان اور سیّدنا علی سمیت صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم اور امام سفیان ثوری، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ جمیعا کییہ رائے کہ {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}کی تلاوت جہراً نہ کی جائے، بلکہ اس کو دل میں پڑھا جائے۔ (ترمذی: ۲۴۴ کے بعد) نیز انھوں نے کہا: سیّدنا ابو ہریرہ، سیّدنا عبد اللہ بن عمر، سیّدنا عبد اللہ بن عباس اور سیّدنا عبد اللہ بن زبیر سمیت بعض صحابہ کرام اور بعض تابعین کا یہ مسلک ہے کہ (جہری نمازوں میں فاتحہ کے ساتھ) {بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} کو بھی جہراً پڑھا جائے، امام شافعی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کی بھییہی رائے ہے۔ (ترمذی: ۲۴۵ کے بعد) قارئین کرام! آپ اس موضوع سے متعلقہ درج بالا تمام روایات پر غور کریں، ان میں جمع و تطبیق کی صورت یہی نظر آتی ہے کہ جن روایات میں {بِسْمِ اللّٰہِ…} کی نفی کی گئی ہے، ان سے مراد جہر کی نفی ہے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا اکثرو بیشتریہی معمول رہا، بسا اوقات آپ سے اس کو جہراً پڑھنا ثابت ہے، جن صحابہ کرام نے سختی سے اِس آیت کو پڑھنے سے منع کیا، ان کے علم میں اس کو ثابت کرنے والی احادیث نہیں تھیں۔ آپ اس دعوی کو ناممکن یا محال نہ سمجھیں کیونکہ جو لوگ {بِسْمِ اللّٰہِ …} کے جہر کو روایۃً اور عملاً ثابت کر رہے ہیں، وہ بھی صحابہ کرام ہی ہیں۔ کئی دوسرے مسائل میں جمع و تطبیق کییہ صورتیں موجود ہیں، ہماری ذمہ دارییہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک موضوع سے متعلقہ جو کچھ ثابت ہے، اس کو سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، الا یہ کہ کوئی ناسخ و منسوخ کی صورت پیدا ہو جائے۔