Blog
Books
Search Hadith

{اَتَجْعَلُ فِیْہا مَنْ یُفْسِدُ فِیَہَا} کی تفسیر اور ہاروت اور ماروت کا قصہ

۔ (۸۴۸۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَ نَّہُ سَمِعَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ آدَمَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا أَ ہْبَطَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِلَی الْأَ رْضِ قَالَتْ الْمَلَائِکَۃُ: أَ یْ رَبِّ! {أَ تَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَ عْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} قَالُوْا: رَبَّنَا نَحْنُ أَ طْوَعُ لَکَ مِنْ بَنِی آدَمَ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِلْمَلَائِکَۃِ: ہَلُمُّوا مَلَکَیْنِ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ حَتّٰییُہْبَطَ بِہِمَا إِلَی الْأَرْضِ فَنَنْظُرَ کَیْفَیَعْمَلَانِ، قَالُوا رَبَّنَا: ہَارُوتُ وَمَارُوتُ، فَأُہْبِطَا إِلَی الْأَرْضِ وَمُثِّلَتْ لَہُمَا الزُّہَرَۃُ امْرَأَ ۃً مِنْ أَ حْسَنِ الْبَشَرِ، فَجَائَ تْہُمَا فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَکَلَّمَا بِہٰذِہِ الْکَلِمَۃِ مِنْ الْإِشْرَاکِ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نُشْرِکُ بِاللّٰہِ أَ بَدًا، فَذَہَبَتْ عَنْہُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِیٍّ تَحْمِلُہُ، فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا، فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَقْتُلَا ہٰذَا الصَّبِیَّ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نَقْتُلُہُ أَ بَدًا، فَذَہَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحِ خَمْرٍ تَحْمِلُہُ، فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَشْرَبَا ہٰذَا الْخَمْرَ، فَشَرِبَا فَسَکِرَا فَوَقَعَا عَلَیْہَا، وَقَتَلَا الصَّبِیَّ، فَلَمَّا أَ فَاقَا، قَالَتِ الْمَرْأَ ۃُ: وَاللّٰہِ! مَا تَرَکْتُمَا شَیْئًا مِمَّا أَ بَیْتُمَاہُ عَلَیَّ إِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَا حِینَ سَکِرْتُمَا، فَخُیِّرَا بَیْنَ عَذَابِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَاخْتَارَا عَذَابَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۶۱۷۸)

۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو فرشتوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! {أَ تَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَ عْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} … کیا تو اس زمین میں اس بشر کو آباد کرنے والا ہے، جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اللہ نے کہا:میں و ہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ لیکن فرشتوں نے کہا: ہم آدم کی اولاد کی بہ نسبت تیرے زیادہ مطیع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: اچھا پھر دو فرشتے لائو تا کہ ہم انہیں زمین پر اتاریں اور دیکھیں کہ وہ کیا عمل کرتے ہیں، انہوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! یہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں، پس انہیں زمین پر اتارا گیا اور ان کے سامنے ایک حسین ترین عورت پیش کی گئی،یہ دونوں اس کے پاس آئے اور اس سے اس کے نفس کا یعنی بدکاری کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم: نہیں، اس وقت تک تم قریب نہیں آ سکتے، جب تک تم اللہ تعالیٰ سے شرک والا کلمہ نہیں کہو گے، انہوں نے کہا: ہم تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کر سکتے۔ سو وہ چلی گئی اور پھر ایک بچہ لے کر دوبارہ آ گئی، انہوں نے پھراس عورت سے بدکاری کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا:جب تک تم اس بچے کوقتل نہیں کرتے، میرے قریب نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم اسے تو قتل نہیں کر سکتے، وہ چلی گئی اور اگلی بار شراب کا پیالہ لے کر آئی، جب انہوں نے پھر اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تمہیں قریب نہیں آنے دوں گی،یہاں تک کہ تم یہ شراب پی لو، جب انہوں نے شراب پی لی تو(نشے میں آ کر)اس عورت سے بدکاری بھی کر لی اور بچے کو قتل بھی کر دیا، جب ان کو ہوش آئی تو اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم! ہر جس جس چیز کے انکاری تھی، تم نے نشہ کی حالت میں اس کا ارتکاب کر لیا ہے، (اس جرم کی پاداش میں) انہیں دنیا اور آخرت کے عذاب میں سے ایک کو منتخب کرنے کا کہا گیا، انہوں نے دنیا کا عذاب اختیار کیا۔
Haidth Number: 8485
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۴۸۵) تخریج: اسنادہ ضعیف ومتنہ باطل، موسی بن جبیر الانصاری المدنییخطیء ویخالف، وقال الحافظ: مستور، وزھیر بن محمد الخراسانی صدوق منکر الحدیث۔ والصحیح ان ھذا الحدیث لا تصح نسبتہ الی النبی الکریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وانما ھو من قصص کعب الاحبار، نقلہ عن کتب بنی اسرائیل ۔ أخرجہ ابن حبان: ۶۱۸۶،و البزار: ۲۹۳۸، والبیھقی: ۱۰/ ۴ (انظر: ۶۱۷۸)

Wazahat

فوائد:… یہ حدیث تو ضعیف ہے، البتہ فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے ربّ! اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے، جبکہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے، جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لیے ہم موجود ہیں، ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق میں متوقع ہیں؟ اللہ تعالی نے فرمایا: میں وہ مصلحت ِ راجحہ جانتا ہوں جس بنا پر ان ذکر کردہ مفاسد کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں، جو تم نہیں جانتے، کیونکہ ان میں انبیائ، صلحائ، شہداء اور اتقیا بھی ہوں گے۔ ہاروت اور ماروت واقعی دو فرشتے ہیں، سورۂ بقرہ کی آیت نمبر (۱۰۲) میں ان کا ذکر موجود ہے، اللہ تعالی نے بابل میں ان پر جادو کا علم نازل کیا تھا تاکہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ انبیاء و رسل کے ہاتھوں پر ظاہر شدہ معجزے، جادو سے مختلف چیز ہے اور جادو یہ ہے جس کا علم اللہ تعالی کی طرف سے ہم دو فرشتوں کو عطا کیا گیا ہے۔ اس دور میں جادو عام ہونے کی وجہ سے لوگ انبیائے کرام کو نعوذ باللہ جادو گر اور شعبدہ باز سمجھنے لگے تھے، اسی مغالطے سے لوگوں کو بچانے کے لیے اور بطورِ امتحان ان فرشتوں کو نازل کیا گیا۔