Blog
Books
Search Hadith

{عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ…} کی تفسیر

۔ (۸۵۰۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: کَانَ النَّاسُ فِی رَمَضَانَ، إِذَا صَامَ الرَّجُلُ فَأَ مْسٰی فَنَامَ حَرُمَ عَلَیْہِ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ وَالنِّسَائُ حَتّٰییُفْطِرَ مِنْ الْغَدِ، فَرَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ عِنْدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَقَدْ سَہِرَ عِنْدَہُ، فَوَجَدَ امْرَأَ تَہُ قَدْ نَامَتْ، فَأَ رَادَہَا فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ نِمْتُ، قَالَ: مَا نِمْتِ ثُمَّ وَقَعَ بِہَا، وَصَنَعَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَغَدَا عُمَرُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرَہُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {عَلِمَ اللّٰہُ أَ نَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَ نْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ} [البقرۃ: ۱۸۷]۔ (مسند احمد: ۱۵۸۸۸)

۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ (شروع شروع میں) جب لوگ رمضان میں روزہ رکھتے اورآدمی شام ہو جانے یعنی غروب ِ آفتاب کے بعد سوجاتا تو اس پر کھانااور پینا اور بیویاں حرام ہو جاتیں،یہاں تک کہ وہ دوسرے دن افطار کرتا۔ ایک رات سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جاگتے رہے اور (دیر سے) اپنے گھر کو لوٹے، جب وہ پہنچے تو بیوی کو دیکھا کہ وہ سوگئی ہے، جب انھوں نے اس سے صحبت کرنا چاہی تو اس نے کہا: میں تو سو گئی تھی (لہٰذا اب صحبت جائز نہیں رہی)، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو نہیں سوئی تھی، پھر انھوں نے حق زوجیت ادا کر لیا، اُدھر سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ایسے ہی کیا، جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے فعل سے مطلع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {عَلِمَ اللّٰہُ أَ نَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَ نْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ}
Haidth Number: 8501
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۵۰۱) تخریج: اسنادہ حسن (انظر: ۱۵۷۹۵)

Wazahat

فوائد:… پوری آیتیوں ہے: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَایِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰییَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِیالْمَسٰجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ۔}… تمھارے لیے روزے کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرنا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے جان لیا کہ بے شک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمھیں معاف کر دیا، تو اب ان سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے، پھر روزے کو رات تک پورا کرو اور ان سے مباشرت مت کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو ان کے قریب نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ بچ جائیں۔ سورۂ بقرہ: (۱۸۷) سیدنا برائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: لَمَّا نَزَلَ صَوْمُ رَمَضَانَ کَانُوا لَا یَقْرَبُونَ النِّسَائَ رَمَضَانَ کُلَّہُ وَکَانَ رِجَالٌ یَخُونُونَ أَ نْفُسَہُمْ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ {عَلِمَ اللّٰہُ أَ نَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَ نْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ} … جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو لوگ پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب تک نہیں جاتے تھے، لیکن کچھ اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے، پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی: اللہ تعالی نے جان لیا کہ تم اپنی نفسوں سے خیانت کرتے ہو، اس لیے اس نے تمہاری طرف رجوع کیا اور تم کو معاف کر دیا۔ (صحیح بخاری: ۴۱۴۸) یقینایہ مشکل عمل تھا کہ افطاری کے بعد عشاء کی نماز سے یا اس سے پہلے نیند آ جانے سے لے کر دوسرے دن غروب ِ آفتاب تک روزے کی پابندیوں کا خیال رکھا جائے، بہرحال صحابۂ کرام کی کثیر تعداد نے اس پر عمل کیا، جب چند صحابۂ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان پابندیوں کے معاملے میں سستی ہوئی تو اللہ تعالی نے ساری رات کھانے پینے وغیرہ کی رخصت دے دی اور سحری کے کھانے کی گنجائش پیدا کر دی۔