Blog
Books
Search Hadith

ان لوگون کا بیان جو یہ کہتے ہیں کہ جنابت والا قرآن مجید کی تلاوت نہ کرے

۔ (۸۵۹)۔عَنْ أَبِی الْغَرِیْفِ قَالَ: أُتِیَ عَلِیٌّؓ بِوَضُوْئٍ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا وَغَسَلَ وَجْہَہُ ثَـلَاثًا وَغَسَلَ یَدَیْہِ وَذِرَاعَیْہِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ مَسَحَ بِرَأسِہِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ہٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَوَضَّأَ ثُمَّ قَرَأَ شَیْئًا مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ قَالَ: ((ھٰذَا لِمَنْ لَیْسَ بِجُنُبٍ، فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلَا وَلَا آیَۃً۔)) (مسند أحمد: ۸۷۲)

ابو غریف کہتے ہیں: سیدنا علی ؓ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا، انھوں نے تین تین بار کلی اور ناک میں پانی چڑھایا، تین دفعہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ ہاتھوں اور بازوؤں کو دھویا، پھر اپنے سرکا مسح کیا اور پھر پاؤں کو دھویا۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے قرآن مجید کی کچھ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: وہ بندہ یہ تلاوت کر سکتا ہے، جو جنبی نہ ہو، رہا مسئلہ جنابت والے آدمی کا تو وہ تلاوت نہیں کر سکتا ہے، ایک آیت بھی نہیں پڑھ سکتا۔
Haidth Number: 859
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۵۹) تخریج: قال الالبانی: ھذا صحیح موقوفا، لا مرفوعا (ارواء الغلیل:۲/۲۴۱)۔ أخرجہ ابویعلی: ۳۶۵ (انظر: ۸۷۲)

Wazahat

فوائد:… اس باب کی مرفوع احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جنابت کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے اس عمل کو استحباب پر محمول کریں گے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے کسی حالت میں کوئی کام نہ کرنے سے حرمت یا ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔ ہمیں یہ نظریہ راجح معلوم ہوتا ہے کہ جنبی اور کسی بھی غیر طاہر شخص کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرِ الٰہی کے لیے وضو کرے، جہاں تک مسئلہ جواز کا ہے تو ایسے افراد کے لیے زبانی تلاوت کرنا یا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا درست ہے، دلائل مندرجہ ذیل ہیں: (۱) براء ہ اصلیہ ، یعنی جنبی اور حائضہ کے حق میں قرآن مجید کی تلاوت کو ممنوع قرار دینے پر کوئی صریح اور صحیح حدیث دلالت نہیں کرتی۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ جنبی کیلئے (قرآن کی) قراء ت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح بخاری تعلیقًا: کتاب الحیض، باب تقضی الحائض المناسک کلھا الا الطواف بالبیت) جنبی ‘ حائضہ اور نفاس والی عورت ‘ تینوں بالاتفاق اللہ تعالیٰ کا ذکر کر سکتے ہیں اور قرآن مجید بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘ لہٰذا وہ اس کی تلاوت کر سکتے ہیں‘ تفصیل اگلی دلیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کے موقع پر حائضہ ہو گئیں‘ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے انہیں حکم دیا: ((فَافْعَلِیْ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ غَیْرَ اَنْ لَّاتَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَطْھُرِیْ۔)) … بیت اللہ کے طواف کے علاوہ آپ بھی دوسرے حاجیوں کی طرح حج کے مناسک ادا کرتی رہیں اور پاک ہونے کے بعد طواف کر لینا۔ (صحیح بخاری: ۳۰۵) قابل غور بات یہ ہے طواف کے علاوہ دوسرے مناسک بھی اذکار‘ تلبیہ اور دعاؤں پر مشتمل ہیں‘ جنہیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پورا کرنے کا حکم دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر نے کہا: سب سے بہترین بات وہ ہے جو ابن رشید نے ابن بطال وغیرہ کی پیروی کرتے ہوئے کہی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے امام بخاری کی مرادحائضہ اور جنبی کی قراء ت کے جواز پر استدلال کرنا ہے‘ کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مناسک حج میں سے صرف طواف‘ جو کہ مخصوص نماز ہے، کو مستثنی کیا اور حج کے بقیہ اعمال ذکر‘ تلبیہ اور دعاء پر مشتمل ہیں‘ لیکن حائضہ عورت کو ان سے منع نہیں کیا گیا‘ اسی طرح جنبی آدمی ہے‘ جس کا حدث حائضہ کے حدث سے کم ہے اور اگر تلاوتِ قرآن کو اللہ کا ذکر ہونے کی بناء ممنوع قرار دیا جائے تو اس میں اور مذکورہ بالا اذکار میں کوئی فرق نہیںاور اگر تلاوت کو تعبدی طور پر ممنوع سمجھا جائے تو اس کیلئے دلیل کی ضرورت ہے اورمصنف (امام بخاری) کے نزدیک اس مسئلہ کے بارے وارد احادیث میں سے کوئی حدیث بھی صحیح نہیں۔ (فتح الباری: حدیث ۳۰۵ کے تحت) جنابت والا آدمی قرآن مجید کو چھو نہیں سکتا، اس کی دلیل درج ذیل ہے: سیدنا عبداللہ بن ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے جو خط عمرو بن حزم کو لکھا تھا‘ اس میں یہ الفاظ بھی تھے: ((لَایَمَسُّ الْقُرْآنَ اِلَّا طَاھِرٌ۔)) … قرآن مجید کو صرف طاہر ہی پکڑ سکتا ہے۔ ( مؤطا امام مالک: ۴۱۹، دارقطنی: ۱/۱۲۲، البیہقی: ۱/۸۷) جن روایات میں جنبی اور حائضہ کو قرآن مجید کی تلاوت سے منع کیا گیا‘ ان میں سے واضح ترین مندرجہ ذیل چار ضعیف احادیث ہیں: (۱)سیدنا جابر ؓسے روایت ہے کہ نبیِ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ((لَاتَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَاالنُّفَسَائُ مِنَ الْقُرْآَنِ شَیْئًا۔)) … حیض اور نفاس والی عورتیں قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔ (دارقطنی: ۲/۸۷، حلیۃ الاولیاء: ۴/۲۲) اس حدیث کی سند میں محمد بن فضل متروک راوی ہے، حافظ ابن حجر نے تقریب میں کہا: محدثین نے اس کو کذاب کہا ہے۔ (۲)سیدنا عبدا للہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ((لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَیْئًا مِنَ الْقُرْآنِ۔)) … حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔ (ترمذی: ۱۳۱، ابن ماجہ: ۵۹۵) اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے‘ جو حجازیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے اور یہ حدیث حجازیوں سے ہے۔ (۳)سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ((اِقْرَأِ الْقُرْآنَ عَلٰی کُلِّ حَالٍ مَا لَمْ تَکُنْ جُنُبًا۔)) … سوائے حالت ِ جنابت کے آپ ہر حال میں قرآن پڑھ سکتے ہیں۔ (ابن عدی: ۳/۹۲۵) اس کی سند میں خارجہ بن مصعب ہے‘ جو کہ متروک ہے اور جھوٹے راویوں سے تدلیس کرتا ہے۔ (۴)سیدنا علی ؓکہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو دیکھا‘ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے وضوء کیا، پھر قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کیا اور فرمایا: ((ھٰکَذَا لِمَنْ لَیْسَ بِجُنُبٍ‘ فَاَمَّا الْجُنُبُ فَلَا وَلَا آیَۃً۔)) … یہ طریقہ کار اس شخص کیلئے ہے جو جنبی نہیں‘ رہا مسئلہ جنبی کا تو وہ ایک آیت بھی تلاوت نہیں کر سکتا۔ (مسند احمد: ۱/۱۱۰، مسند ابو یعلی: ۳۶۵) اس روایت کو عائذ بن حبیب نے عامر بن سمطہ سے مرفوعا بیان کیا‘ جبکہ درج ذیل اوثق رواۃ نے عامر سے سیدنا علیؓ پر موقوفا روایت کیا ہے: یزید بن ہارون‘ امام ثوری‘ خالد بن عبدا للہ‘ حسن بن صالح بن حی‘ شریک بن عبداللہ‘ اسحاق بن ابراہیم۔ یہ روایت اس باب میں بھی موجود ہے، زیادہ وضاحت کی وجہ سے لکھ دی گئی ہے۔ امام دارقطنی نے موقوفا روایت کرنے کے بعد کہا کہ یہ سیدنا علیؓ سے صحیح ہے۔ (دارقطنی:۱/۱۱۸) جبکہ عبدالرزاق نے کہا کہ عبد الرزاق بھی اسی (اثر) کو لے گا۔ (مصنف عبد الرزاق: ۱/۳۳۶) مزید دیکھیں: ارواء الغلیل: ۲/۲۴۳