Blog
Books
Search Hadith

{یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} کی تفسیر

۔ (۸۵۷۳)۔ عَنْ أَ بِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اشْتَکَیْتُ وَعِنْدِی سَبْعُ أَ خَوَاتٍ لِی، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَضَحَ فِی وَجْہِی، فَأَ فَقْتُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُوصِی لِأَ خَوَاتِی بِالثُّلُثَیْنِ، قَالَ: ((أَحْسِنْ۔)) قُلْتُ: بِالشَّطْرِ، قَالَ: ((أَحْسِنْ۔)) قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ وَتَرَکَنِی ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: ((یَا جَابِرُ إِنِّی لَا أَ رَاکَ مَیِّتًا مِنْ وَجَعِکَ ہٰذَا، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ فَبَیَّنَ الَّذِی لِأَخَوَاتِکَ، فَجَعَلَ لَہُنَّ الثُّلُثَیْنِ۔))، فَکَانَ جَابِرٌ یَقُولُ: نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ فِیَّ: {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ} [النسائ:۱۷۶]۔ (مسند احمد: ۱۵۰۶۲)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیمار پڑ گیا، جبکہ میری سات بہنیں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے چہرے پر پانی چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنی بہنوں کے لئے اپنے دو تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیادہ کرو۔ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور زیادہ کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے اور پھر واپس آئے اورفرمایا: اے جابر! میرا خیال ہے کہ تم اس تکلیف کیوجہ سے فوت ہونے والے نہیں ہو، بہرحال اللہ تعالی نے قرآن نازل کر کے تیری بہنوں کا حصہ واضح کر دیا ہے اور ان کو دو تہائی دیا ہے۔ سیدنا جابر کہا کرتے تھے: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے: {یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ}۔
Haidth Number: 8573
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۵۷۳) تخریج: حدیث صحیح ۔ أخرجہ ابوداود: ۲۸۸۷ (انظر: ۱۴۹۹۸)

Wazahat

فوائد:… ظاہری طور پر حدیث میں اشکال ہے کہ دو تہائی مال وصیت پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: احسن زیادہ کر۔ تو جابر نے کہا نصف وصیت کر دیتا ہوں، ظاہر ہے کہ نصف دو تہائی سے کم ہے، اسی طرح اگلی بات ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ لا خواتی میں لام، عَلٰی کے معنی میں ہے مطلب ہے کہ بہنوں پر اور ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے ہوئے دو تہائی وصیت کروں اورر باقی بہنوں کو دوں تو آپ نے فرمایا: بہنوں کو زیادہ دے پھر نصف کے بعد بھی فرمایا: بہنوں کو اور زیادہ دے۔ پھر آیت میراث نازل ہونے پر واضح ہوگیا کہ ایک سے زائد بہنوں کو دو تہائی حصہ ملے گا۔ (دیکھیں بلوغ الامانی) (عبداللہ رفیق)