Blog
Books
Search Hadith

اِلٰی قَوْلِہِ {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ} کی تفسیر

۔ (۸۵۸۳)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قاَلَ: إِنَّ اللَّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَ نْزَلَ: {وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَ نْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ} وَ {أُوْلٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ} وَ{أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَ نْزَلَھَا اللّٰہُ فِی الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْیَھُوْدِ، وَکَانَتْ إِحْدَاھُمَا قَدْ قَھَرَتِ اْلأُخْرٰی فِی الْجَاھِلِیَّۃِ حَتّٰی ارْتَضَوْا وَاصْطَلَحُوْا عَلٰی أَ نَّ کُلَّ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ (الْعَزِیْزَۃُ) مِنَ الذَّلِیْلَۃِ فَدِیَتُہٗ خَمْسُوْنَ وَسْقاً، وَکُلُّ قَتِیْلٍ قَتَلَہُ (الذَّلِیْلَۃُ) مِنَ (الْعَزِیْزَۃِ) فَدِیَتُہُ مِئَۃُ وَسْقٍ، فَکَانُوْا عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی قَدِمَ النَّبِیُّ الْمَدِیْنَۃَ، فَذَلَّتِ الطَّائِفَتَانِ کِلْتَاھُمَا لِمَقْدَمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَوْمَئِذٍ لَّمْ یَظْھَرْ وَلَمْ یُوَطِّئْھُمَا عَلَیْہِ وَھُوَ فِی الصُّلْحِ، فَقَتَلَتِ (الذَّلِیْلَۃُ) مِنَ (الْعَزِیْزَۃِ) قَتِیْلاً فَأَ رْسَلَتِ (الْعَزِیْزَۃُ) إِلٰی (الذَّلِیْلَۃِ) أَ نِ ابْعَثُوْا إِلَیْنَا بِمِئَۃِ وَسْقٍ، فَقَالَتِ( الذَّلِیْلَۃُ) وَھَلْ کَانَ ھٰذَا فِی حَیَّیْنِ قَطُّ دِ یْنُھُمَا وَاحِدٌ، وَنَسَبُھُمَا وَاحِدٌ، وَبَلَدُھُمَا وَاحِدٌ، دِیَۃُ بَعْضِھِمْ نِصْفُ دِیَۃِ بَعْضٍ؟ إِنَّا إِنَّمَا أَ عْطَیْنَاکُمْ ھٰذَا ضَیْماً مِنْکُمْ لَنَا، وَفَرَقًا مِنْکُمْ فَأَ مَّا إِذْ قَدِمَ مُحَمَّدٌ فَلَا نُعْطِیْکُمْ ذٰلِکَ، فَکَادَتِ الْحَرْبُ تَھِیْجُ بَیْنَھُمَا، ثُمَّ ارْتَضَوْا عَلٰی أَ ن یَّجْعَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَھُمْ، ثُمَّ ذَکَرَتِ (الْعَزِیْزَۃُ) فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ مَامُحَمَّدٌ بِمُعْطِیْکُمْ مِنْھُمْ ضِعْفَ مَایُعْطِیْھِمْ مِنْکُمْ، وَلَقَدْ صَدَقُوْا، مَا أَ عْطَوْنَا ھٰذَا إِلاَّ ضَیْمًا مِنَّا، وَقَھْراً لَّھُمْ، فَدُسُّوْا إِلٰی مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ یُخْبِرُ لَکُمْ رَأْیَہُ، إِنْ أَ عْطَاکُمْ مَاتُرِیْدُوْنَ حَکَّمْتُوْہُ، وَاِنْ لَّمْ یُعْطِکُمْ حَذِرْتُمْ فَلَمْ تُحَکِّمُوْہُ، فَدَسُّوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَاساً مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ لِیُخْبِرُوْا لَھُمْ رَأْیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَلَمَّا جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗبِأَمْرِھِمْکُلِّہٖوَمَاأَرَادُوْا،فَأَنْزَلَاللّٰہُعَزَّوَجَلَّ: {یَأَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَایَحْزُنْکَ الَّذِیْیُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوَا آمَنَّا} إلی قولہ: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔} ثُمَّ قَالَ: فِیْھِمَا وَاللّٰہِ نَزَلَتْ، وَإِیَّاھُمَا عَنَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۲)

۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں اور وہ لوگ ظالم ہیں اور وہ لوگ فاسق ہیں انھوں نے کہا: اللہ تعالی نے یہ آیاتیہودیوں کے دو گروہوں کے بارے میں نازل کیں، ان میں سے ایک نے دورِ جاہلیت میں دوسرے کو زیر کر لیا تھا، حتی کہ وہ راضی ہو گئے اور اس بات پر صلح کر لی کہ عزیزہ قبیلے نے ذلیلہ قبیلے کا جو آدمی قتل کیا، اس کی دیت پچاس وسق ہو گی اور ذلیلہ نے عزیزہ کا جو آدمی قتل کیا اس کی دیت سو (۱۰۰) وسق ہو گی، وہ اسی معاہدے پر برقرار تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنے سے وہ دونوں قبیلے بے وقعت ہو گئے، حالانکہ ابھی تک آپ ان پر غالب نہیں آئے تھے اور نہ آپ نے ان کی موافقت کی تھی اور ان کے ساتھ صلح و صفائی کا زمانہ تھا۔ اُدھر ذلیلہ نے عزیزہ کا بندہ قتل کر دیا، عزیزہ نے ذلیلہ کی طرف پیغام بھیجا کہ سو وسق ادا کرو۔ ذلیلہ والوں نے کہا: جن قبائل کا دین ایک ہو، نسب ایک ہو اور شہر ایک ہو، تو کیایہ ہو سکتا ہے کہ ایک کی دیت دوسرے کی بہ نسبت نصف ہو؟ ہم تمھارے ظلم و ستم کی وجہ سے تمھیں (سو وسق) دیتے رہے، اب جبکہ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ چکے ہیں، ہم تمھیں نہیں دیں گے۔ ان کے مابین جنگ کے شعلے بھڑکنے والے ہی تھے کہ وہ آپس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بحیثیت ِ فیصل راضی ہو گئے۔ عزیزہ کے ورثاء آپس میں کہنے لگے: اللہ کی قسم! محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) تمھارے حق میں دو گنا کا فیصلہ نہیں کرے گا، ذلیلہ والے ہیں بھی سچے کہ وہ ہمارے ظلم و ستم اور قہر و جبر کی وجہ سے دو گناہ دیتے رہے، اب محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے پاس کسی آدمی کو بطورِ جاسوس بھیجو جو تمھیں اس کے فیصلے سے آگاہ کر سکے، اگر وہ تمھارے ارادے کے مطابق فیصلہ کر دے تو تم اسے حاکم تسلیم کر لینا اور اگر اس نے ایسے نہ کیا تو محتاط رہنا اور اسے فیصل تسلیم نہ کرنا۔ سو انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ منافق لوگوں کو بطورِ جاسوس بھیجا، جب وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ان کی تمام سازشوں اور ارادوں سے آگاہ کر دیا اور یہ آیات نازل فرمائیں: اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوی کرتے لیکن حقیقت میں ان کے دل باایمان نہیں … … اور جو اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔ (سورۂ مائدہ: ۴۱۔ ۴۴) پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ آیتیں انہی دونوں کے بارے میں نازل ہوئیں اور اللہ تعالی کی مراد یہی لوگ تھے۔
Haidth Number: 8583
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۵۸۳) تخریج: اسنادہ حسن ۔ أخرجہ ابوداود: ۳۵۷۶ (انظر: ۲۲۱۲)

Wazahat

فوائد: …اس حدیث سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آخری اور حتمی فیصل تسلیم کیا جائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلے کو بغیر کسی چون و چرا کے تسلیم کیا جائے۔ امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ اس حدیث میں مذکورہ آیات پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہودیوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلے کے بارے میں کہا: اگر وہ نبی تم کو تمہارے ارادے کے مطابق دے دے تو اس کو حاکم تسلیم کر لینا اور اگر کچھ نہ دے تو بچ جانا اور اسے حاکم تسلیم نہ کرنا۔ قرآن مجید میں بھی ان کے اس قبیح اصول کا ذکر موجود ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: {یَقُوْلُوْنَ اِنْ أُوْتِیْتُمْ ھٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا} (سورۂ مائدہ: ۴۱) یعنی: یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہ چیز دی گئی تو لے لینا اور نہ دیگئی تو بچ جانا۔ درج ذیل تین آیات اِن یہودیوں اور ان کے اس فیصلے کے بارے میں نازل ہوئیں: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ} (سورۂ مائدہ: ۴۴) یعنی: اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے، وہ کافر ہیں۔ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْن} (سورۂ مائدہ: ۴۵) یعنی: اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے، وہ ظالم ہیں۔ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْن} (سورۂ مائدہ: ۴۷) یعنی: اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے، وہ فاسق ہیں۔ اگریہ آیاتیہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تو ان کی روشنی میں ان مسلم حکمرانوں اور قاضیوں کو کافر اور غیر مسلم نہیں قراردیا جا سکتا، جو اللہ تعالی اور رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ملکی معاملات میں اللہ تعالی کے احکام سے ہٹ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ مجرم ہیں جو مذکورہ انداز میں فیصلہ کرنے میں یہودیوں کی طرح ہیں، لیکن اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے کی وجہ سے یہودیوں سے مختلف ہیں، کیونکہیہودیوں نے تو کہا تھا کہ اگر ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کیا گیا تو وہ اللہ کے رسول کو سرے سے حاکم ہی تسلیم نہیں کریں گے، جبکہ مسلم حکمرانوں کا معاملہ ان کے برعکس ہے، یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حقیقی حاکم تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تعلیمات کو برحق سمجھتے ہیں، لیکن عملی طور پر فیصلہ کرتے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے احکام سے پہلو تہی کر جاتے ہیں۔ اس بحث کا نتیجہیہ ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں: (۱)اعتقادی اور (۲) عملی۔ اعتقادی کفر کا محل دل اور عملی کفر کا محل ظاہری اعضاء ہیں۔ اگر کوئی آدمی شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے کفریہ عمل کرتا ہے اور اس کا دل اس کے اس فیصلے پر مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ اعتقادی کفر کہلائے گا، ایسے کافر کی بخشش نہیں ہو گیاوریہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ لیکن اگر کسی آدمی کا دل شرعی احکام کی روشنی میں اس کے کفریہ عمل کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے غلط سمجھ رہا ہو تو یہ عملی کفر کہلائے گا، ایسا مجرم مسلم ہی تصور ہو گا، اس کا یہ بد عمل اللہ تعالی کی مشیت میں ہوگا، اس نے چاہا تو بخش دے گا اور چاہا تو سزا دے گا۔ جن احادیث میں مسلمانوں کی بعض معصیتوں کو کفر کہا گیا ہے، اس سے مراد عملی کفر ہے، مثلا: (۱) نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا کفر ہے۔ (۲) قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ (۳)مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔ (۴) اپنے نسب سے براء ت کا اظہار کرنا اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے۔ (۵) اللہ تعالی کی نعمت کا بیان کرنا شکر ہے اور ایسا نہ کرنا کفر ہے۔ (۶) میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاؤ۔ علاوہ ازیں اس موضوع پر دلالت کرنے والی بہت سی احادیث ہیں، اس مقام پر ان کا احاطہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان برائیوں اور معصیتوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا کفر عملی ہوتا ہے، یعنی وہ وہ عمل کرتا ہے، جو عام طور پر کافر کرتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی آدمی کسی برائی کو حلال اور جائز سمجھ کا اس کا ارتکاب کرتا ہے اور سرے سے اسے نافرمانی ہی تصور نہیں کرتا تو وہ کافر ہو گا، کیونکہ وہ عقائد میں کفار کی طرح ہو جاتا ہے۔ سلف صالحین کفر د ون کفر کی اصطلاح استعمال کرتے رہے، ترجمان القرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھییہ قاعدہ منقول ہے، پھر بعض تابعین نے ان سے نقل کیا۔ اس اصطلاح کا یہی تقاضا ہے کہ ہر عملی کفر کو اعتقادی کفر نہیں کہا جا سکتا اور یہ کہ عملی کفر کی مختلف اقسام ہیں، کسی کا گناہ زیادہ ہوتا ہے اور کسی کا کم۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس نازک مسئلہ میں گمراہ ہو گئے ہیں، انھوں نے خارجیوں کا روپ دھار لیا ہے، جو بعض گناہوں کی وجہ سے صوم و صلاۃ کے پابند مسلمانوں کو کافر قرار دیتے تھے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں متقدمین کے بعض اقوال ذکر کر دیئے جائیں، شاید وہ ان لوگوں کے کے لیے مشعلِ ہدایت ثابت ہوں۔ (۱) ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر (۱۰/ ۳۵۵/ ۱۲۰۵۳) میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا یہ قول نقل کیا: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْن} اس آیت کا مصداق بننے والا کافر تو ہے، لیکن اس سے اللہ تعالی، فرشتوں،آسمانی کتابوں اور رسولوں کے ساتھ کفر لازم نہیں آتا۔ (۲)ایک روایت کے مطابق اسی آیت کے بارے میں انھوں نے کہا: اس آیت سے مراد وہ کفر نہیں، جو ملت ِ اسلام سے خارج کر دیتا ہے، جیسا کہ خوارج کا خیال ہے، بلکہ یہ آیت کفر دون کفر کی اصطلاح کا مصداق ہے۔ (مستدرک حاکم: ۲/ ۳۱۳)۔ (۳) ابن جریر کی ایک روایت کے مطابق سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: جس نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کا انکار کیا، اس نے (اعتقادی) کفر کیا اور جس نے ان احکام کو برحق تسلیم کیا، لیکن ان کی روشنی میں فیصلہ نہ کیا تو وہ ظالم اور فاسق ٹھہرے گا۔ (۴) ابن جریر (۱۲۰۲۵، ۱۲۰۲۶) دو سندوں کے ساتھ عمران بن حدیر سے بیان کرتے ہیں کہ بنوعمرو کے کچھ لوگ ابو مجلز کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ ان تین آیات کو حق سمجھتے ہیں: {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْن}(سورۂ مائدہ: ۴۴) یعنی : اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے، وہ کافر ہیں۔ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْن} (سورۂ مائدہ: ۴۵) یعنی: اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے، وہ ظالم ہیں۔ {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْن} (سورۂ مائدہ: ۴۷) یعنی: اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے، وہ فاسق ہیں۔ ابومجلز:جی ہاں۔ بنوعمرو: ابو مجلز! تو کیا ہمارے حکمران اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں؟ ابومجلز: ہمارے حکمرانوں کا دین اسلام ہے، وہ اسی کے قائل ہیں اور اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اگر یہ لوگ دیدہ دانستہ طور پر دین کے بعض امور کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو گنہگار ہوں گے، نہ کہ کافر۔ بنوعمرو: اللہ کی قسم! جو کچھ تم کہہ رہے ہو ایسے ہر گز نہیں ہے۔ تم ان سے ڈر رہے ہو۔ (یہ لوگ کافر ہیں)۔ ابومجلز: اگر تم لوگ کوئی حرج محسوس کیے بغیر ایسا کہنا چاہتے ہو تو کہو، بہرحال میری رائے یہ نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ یہ آیاتیہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جو مشرک تھے۔ قرآن مجید کی اس آیت {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْن} (سورۂ مائدہ: ۴۴) میں کفر سے کیا مراد ہے؟ ابن جریر نے اپنی تفسیر (۱۰/ ۳۴۶۔ ۳۵۷) میںعلمائے کرام کے پانچ اقوال بیان کیے ہیں اور یوں کہتے ہوئے بات ختم کی ہے: میرے نزدیک ان میں سے راجح ترین قول یہ ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے کافروں کے بارے میں نازل ہوئی، کیونکہ اس سے پہلے والی اور بعد والی آیات میں ان ہی لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، سیاق و سباق کا یہی تقاضا ہے کہ اس سے مراد یہود و نصاری لیے جائیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں عام بات کی ہے کہ جو بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا، وہ کافر ٹھہرے گا، آپ لوگ اس کو بعض لوگوں کے ساتھ خاص کیوں کرتے ہیں؟ جواب یہ دیا جائے گا کہ اس آیت میں عام الفاظ ان لوگوں کے بارے میں ہی استعمال ہی کیے گئے ہیں، جو اللہ تعالی کے حکم کا انکار کرنے والے تھے اور ہم بھییہی کہتے ہیں کہ جو آدمی اللہ تعالی کے احکام کا انکار کرتے ہوئے ان کو ترک کرے گا، وہ کافر کہلائے گا، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا ہے۔ خلاصۂ قول یہ ہے کہ یہ آیت احکامِ الٰہی کا انکار کرنے والے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی، پس جو آدمی ان کی طرح کا انکار کرے گا، وہ ان کی طرح کا ہی اعتقادی کافر کہلائے گا اور جو آدمی اللہ تعالی کے احکام کا انکار نہیں کرتا، بلکہ ان کو حق تسلیم کرتا ہے، لیکن فیصلہ کرتے وقت ان احکام سے پہلو تہی کر جاتا ہے تو اس کا کفر عملی ہو گا، وہ گنہگار ہو گا، لیکن ملت ِ اسلام سے خارج نہیں ہو گا، جیسا سیدنا ابن عباس کی رائے بیان کی جا چکی ہے۔ حافظ ابو عبید قاسم بن سلام نے (کتاب الایمان: باب الخروج من الایمان بالمعاصی صـ: ۸۴۔ ۹۷بتحقیقی) میں اس مضمون پر شاندار بحث کی ہے، خواہشمند افراد خود مطالعہ کر لیں۔ پھرامام ابن تیمیہl (۷/ ۲۵۴)نے کہا: امام احمدl سے اس آیت میں مذکورہ کفر کے بارے میں سوال کیا گیا۔ انھوں نے کہا: یہ ایسا کفر ہے، جس کی وجہ سے بندہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ جیسے ایمان کے مختلف مراتب ہیں، اسی طرح کفر کے بھی مختلف مراتب ہیں۔ کسی مسلمان کو اس وقت تک کافر نہیں قرار دیا جا سکتا، جب تک وہ کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کر لے، جس کی بنا پر بالاتفاق ملت ِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہو۔ شیخ الاسلام (۷/۳۱۲) نے مزید کہا: جس طرح سلف صالحیں کا خیال ہے کہ ایک آدمی میں ایمان اور نفاق دونوں صفات ہو سکتی ہے، اسی طرح کسی آدمی میں ایمان اور کفر دونوں کا وجود ممکن ہے، لیکنیاد رہے کہ جس کفر سے ایمان ضائع نہیں ہوتا، وہ مسلمان کو ملت ِ اسلام سے خارج نہیں کرتا، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے تلامذہ نے کہا کہ اللہ تعالی کے فرمان {وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْن}(سورۂ مائدہ: ۴۴) میں مذکورہ کفر کے بارے میں کہا کہ اس سے کوئی بندہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ پھر امام احمدl جیسے ائمہ نے ان کی موافقت بھی کی ہے۔ ممکن ہے کہ ایک وقت میں دو اسباب جمع ہو گئے ہوں اور اس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہوں، شیخ احمد شاکر نے کہا: یہی متعین اور صحیح بات ہے، یہ ضروری نہیں کہ آیات کا نزول صرف ایک واقعہ کے پیشنظر ہو، ممکن ہے کہ دو یا زیادہ واقعات کے بعد قرآن مجید نازل ہوا ہو اور اس میں ان سب کا فیصلہ کیا گیا ہو، پس بعض صحابہ کوئی سبب بیان کر دیتے ہیں اور بعض کوئی، جبکہ یہ ساری باتیں صحیح ہوتی ہیں۔