Blog
Books
Search Hadith

{اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ…} کی تفسیر

۔ (۸۵۹۱)۔ حَدَّثَتْنِی جَسْرَۃُ بِنْتُ دَجَاجَۃَ: أَنَّہَا انْطَلَقَتْ مُعْتَمِرَۃً فَانْتَہَتْ إِلَی الرَّبَذَۃِ فَسَمِعَتْ أَ بَا ذَرٍّ یَقُولُ: قَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً مِنْ اللَّیَالِی فِی صَلَاۃِ الْعِشَائِ فَصَلّٰی بِالْقَوْمِ ثُمَّ تَخَلَّفَ أَ صْحَابٌ لَہُ یُصَلُّونَ، فَلَمَّا رَأٰی قِیَامَہُمْ وَتَخَلُّفَہُمْ انْصَرَفَ إِلٰی رَحْلِہِ، فَلَمَّا رَأَ ی الْقَوْمَ قَدْ أَ خْلَوُا الْمَکَانَ رَجَعَ إِلٰی مَکَانِہِ فَصَلّٰی، فَجِئْتُ فَقُمْتُ خَلْفَہُ، فَأَ وْمَأَ إِلَیَّ بِیَمِینِہِ فَقُمْتُ عَنْ یَمِینِہِ، ثُمَّ جَائَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَامَ خَلْفِی وَخَلْفَہُ، فَأَ وْمَأَ إِلَیْہِ بِشِمَالِہِ فَقَامَ عَنْ شِمَالِہِ، فَقُمْنَا ثَلَاثَتُنَا، یُصَلِّی کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا بِنَفْسِہِ وَیَتْلُو مِنَ الْقُرْآنِ مَا شَائَ اللّٰہُ أَ نْ یَتْلُوَ، فَقَامَ بِآیَۃٍ مِنْ الْقُرْآنِ یُرَدِّدُہَا حَتّٰی صَلَّی الْغَدَاۃَ، فَبَعْدَ أَ نْ أَ صْبَحْنَا أَ وْمَأْتُ إِلٰی عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَ نْ سَلْہُ مَا أَ رَادَ إِلٰی مَا صَنَعَ الْبَارِحَۃَ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِیَدِہِ لَا أَ سْأَ لُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰییُحَدِّثَ إِلَیَّ، فَقُلْتُ: بِأَ بِی أَ نْتَ وَأُمِّی قُمْتَ بِآیَۃٍ مِنْ الْقُرْآنِ وَمَعَکَ الْقُرْآنُ لَوْ فَعَلَ ہٰذَا بَعْضُنَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ، قَالَ: ((دَعَوْتُ لِأُمَّتِی۔)) قَالَ: فَمَاذَا أُجِبْتَ أَ وْ مَاذَا رُدَّ عَلَیْکَ؟ قَالَ: ((أُجِبْتُ بِالَّذِی لَوِ اطَّلَعَ عَلَیْہِ کَثِیرٌ مِنْہُمْ طَلْعَۃً تَرَکُوا الصَّلَاۃَ۔)) قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: ((بَلٰی)) فَانْطَلَقْتُ مُعْنِقًا قَرِیبًا مِنْ قَذْفَۃٍ بِحَجَرٍ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّکَ إِنْ تَبْعَثْ إِلَی النَّاسِ بِہٰذَا نَکَلُوا عَنِ الْعِبَادَۃِ، فَنَادٰی أَ نْ ارْجِعْ فَرَجَعَ وَتِلْکَ الْآیَۃُ: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْلَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ} [المائدۃ: ۱۱۸]۔ (مسند احمد: ۲۱۸۲۷)

۔ جسرہ بنت دجاجہ سے مروی ہے کہ وہ عمرہ کے لئے گئی، جب راستے میں ربذہ مقام پر پہنچی، تو سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: انہوں نے کہا: ایک رات عشاء کی نماز میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیام کیا اور لوگوں کو یہ نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو صحابہ کرام پیچھے ہٹ کر نماز پڑھنے لگے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھنے کے لئے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر چلے گئے، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ جگہ لوگوں سے خالی ہو گئی ہے تو آپ اپنی جگہ پر پھر لوٹ آئے اور نماز پڑھنا شروع کر دی۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دائیں جانب کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہو گیا، اتنے میں سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے اور وہ ہم دونوں کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بائیں جانب کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، سو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے، ہم تینوں اس انداز پر نماز پڑھتے رہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھا اور قرآن مجید میں سے حسب منشا تلاوت کرتا رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قرآن مجید کی صرف ایک آیت کے ساتھ قیام کیا، صبح کی نماز تک اسے ہی دہراتے رہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ فجر سے فارغ ہو گئے تو میں (ابو ذر) نے سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اشارۃً کہا کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گزشتہ رات کے عمل کی بابت پوچھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کیا مقصد تھا کہ ایک آیت ہی دوہراتے رہے، لیکن انہوں نے کہا: میں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں پوچھوں گا، الا یہ کہ آپ مجھ سے گفتگو کریں، پھر میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات گزار دی، جبکہ سارا قرآن مجید آپ کو یاد ہے، اگر ہم سے کوئی ایسا کرتا تو ہم اس سے تو ناراض ہو جاتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی امت کے لئے دعا کی ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کو اس دعا کا کیا جواب دیاگیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس کا ایسا جواب دیا گیا ہے کہ اگر زیادہ تر لوگوں کو اس کا پتہ چل جائے تو وہ اس پر تکیہ کر کے نماز بھی چھوڑ دیں گے۔ میں نے کہا: کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، ضرور دو۔ میں تیز چلا اور ابھی تک ایک پتھر کی پھینک پر تھا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ابوذر کو لوگوں کی طرف بھیج دیا ہے کہ وہ ان کو خوشخبری دیں، اس سے یہ لوگ عبادت میں سست روی اختیار کریں گے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے آواز دی کہ ابو ذر واپس آ جائو، سو میں واپس آ گیا۔ وہ آیتیہ تھی: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ}…
Haidth Number: 8591
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۵۹۰) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ۔ أخرجہ ابوداود: ۴۳۳۸(انظر: ۱)

Wazahat

فوائد:… دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالیٰ سے روزِ قیامت اپنی امت کے لیے سفارش کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جیسا کہ درج ذیل حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے: سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: صَلَّی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً فَقَرَأَ بِآیَۃٍ حَتَّی أَ صْبَحَ یَرْکَعُ بِہَا وَیَسْجُدُ بِہَا {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ۔} فَلَمَّا أَ صْبَحَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا زِلْتَ تَقْرَأُ ہَذِہِ الْآیَۃَ حَتَّیأَ صْبَحْتَ تَرْکَعُ بِہَا وَتَسْجُدُ بِہَا، قَالَ: ((إِنِّی سَأَ لْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ الشَّفَاعَۃَ لِأُمَّتِی فَأَ عْطَانِیہَا وَہِیَ نَائِلَۃٌ إِنْ شَاء َ اللّٰہُ لِمَنْ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ شَیْئًا۔)) … رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک رات کو نماز پڑھی اور صبح تک ایکہی آیت کی تلاوت کے ساتھ رکوع و سجود کا سلسلہ جاری رکھا، وہ آیتیہ تھی: {إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَ نْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ۔}، جب صبح ہوئی تو میں نے کہا: اے للہ کے رسول! آپ صبح تک ایک ہی آیت پڑھتے رہے، اسی کے ساتھ رکوع و سجود کرتے رہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے ربّ سے اپنی امت کے حق میں سفارش کرنے کا سوال کیا، پس اللہ تعالی نے میرا مطالبہ پورا کر دیا، اب ان شاء اللہ ہر وہ آدمی اس سفارش کا مصداق بنے گا، جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ (مسند احمد: ۵/۱۴۹) اس آیت میں اللہ تعالی کے سامنے بندوں کی عاجزی و بے بسی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی عظمت و جلالت اور اس کے قادر مطلوق اور مختار کل ہونے کا بیان بھی اور پھر ان دونوں باتوں کے حوالے سے عفو ومغفرت کی التجا بھی، سبحا ن اللہ! کیسی عجیب و بلیغ آیت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یا اللہ! ان کا ہر معاملہ تیری مشیت کے سپرد ہے، اس لیے کہ تو جو چاہتا ہے، کر گزرتا ہے، تجھ سے کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں ہے، جبکہ تو ہر ایک سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے۔ دراصل اس آیت کے ساتھ عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روزِ قیامت جواب دیں گے، اس آیت کے درج ذیل سیاق و سباق سے اس کے صحیح مفہوم کا ادراک ہوتا ہیـ: {وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ء َاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ ٓ بِحَقٍّ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہ فَقَدْ عَلِمْتَہ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِo مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓاَنِاعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ واَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ شَہِیْدٌ۔ اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo} (سورۂ مائدہ: ۱۱۶۔ ۱۱۸) اور جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا تو پاک ہے، میرے لیے بنتا ہی نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر میں نے یہ بات کہی تھی تو یقینا تو نے اسے جان لیا، تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے، یقینا تو ہی سب چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔ میں نے انھیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو، جو میرا رب اور تمھارا رب ہے اور میں ان پر گواہ تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔اگر تو انھیں عذاب دے تو بے شک وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انھیں بخش دے تو بے شک تو ہی سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔