Blog
Books
Search Hadith

{مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہٗاَسْرٰی …الخ} کی تفسیر

۔ (۸۶۱۲)۔ عَنْ أَ نَسٍ وَذَکَرَ رَجُلًا عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: اسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّاسَ فِی الْأُسَارٰییَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ:((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَ مْکَنَکُمْ مِنْہُمْ۔)) قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اضْرِبْ أَ عْنَاقَہُمْ، قَالَ: فَأَ عْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أَ یُّہَا النَّاسُ! إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَ مْکَنَکُمْ مِنْہُمْ وَإِنَّمَا ہُمْ إِخْوَانُکُمْ بِالْأَ مْسِ۔)) قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ، فَأَ عْرَضَ عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ لِلنَّاسِ مِثْلَ ذٰلِکَ، فَقَامَ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ تَرٰی أَ نْ تَعْفُوَ عَنْہُمْ وَتَقْبَلَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، قَالَ: فَذَہَبَ عَنْ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ فِیہِ مِنْ الْغَمِّ، قَالَ: فَعَفَا عَنْہُمْ وَقَبِلَ مِنْہُمْ الْفِدَائَ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنْ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [الأنفال: ۶۸]۔ (مسند احمد: ۱۳۵۹۰)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جنگ بدر کے دن قیدیوں کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیںان پر قدرت دی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!ان کی گردنیںاڑا دیتے ہیں، آپ نے ان کی بات سے اعراض کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ مشورہ طلب کیا اور فرمایا: اے لوگو! بیشک اللہ تعالی نے یہ تمہارے قابو میں دے دئیے ہیں اور یہ کل تمہارے بھائی بننے والے ہیں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی گردنیں اڑا دیں۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلے کی طرح اعراض کیا اور پھر لوگوں سے وہی بات ارشاد فرما کر مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا :اے اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ آپ انہیں معاف کر دیں اور ان سے فدیہ قبول کر لیں۔ اس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ مبارک سے غم چھٹ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے کر ان کو معاف کر دیا، لیکن اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کردی: {لَوْلَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔} … اگر اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی بات نہ ہوتی، جو پہلے طے ہو چکی تو تمھیں اس کی وجہ سے جو تم نے لیا بہت بڑا عذاب پہنچتا۔
Haidth Number: 8612
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۶۱۲) تخریج: حسن لغیرہ (انظر: ۱۳۵۵۵)

Wazahat

فوائد:… اس آیت سے پہلے والی آیتیہ تھی: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٓ اَسْرٰی حَتّٰییُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔} … کسی نبی کے لیےیہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ ہر طرح غالب اور حکیم ہے۔ (سورۂ انفال: ۶۷)جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لیے گئے، غزوۂ بدر چونکہ کفر و اسلام کا پہلا معرکہ تھا، اس لیے قیدیوں کے بارے میں میں کیاطرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشورہ کیا تو جواز کی حد تک تو دونوں صورتیں جائز تھیں کہ قیدیوں کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے یہ تھی کہ کفر کی قوت و شوکت توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، کیونکہیہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، جبکہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے یہ تھی کہ فدیہلے کر ان کو چھوڑ دیا جائے، مزید وضاحت اگلی حدیث میں آ رہی ہے۔ اس فیصلے کے بعد جو آیات نازل ہوئیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے زیادہ بہتر تھی،یعنی بدر کے قیدیوں کو قتل کر دینا چاہیے تھا۔