Blog
Books
Search Hadith

{مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ یَسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ… اِلٰی آخِرِ الْاٰیَتَیْنِ} کی تفسیر

۔ (۸۶۲۶)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَ بَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ، دَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ، فَقَالَ: ((أَ یْ عَمِّ! قُلْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کَلِمَۃً أُحَاجُّ بِہَا لَکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَقَالَ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ: یَا أَ بَا طَالِبٍ! أَ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ قَالَ: فَلَمْ یَزَالَایُکَلِّمَانِہِ حَتّٰی قَالَ آخِرَ شَیْئٍ کَلَّمَہُمْ بِہِ: عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَأَ سْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ۔)) فَنَزَلَتْ: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَ نْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ، وَلَوْ کَانُوْا أُولِی قُرْبٰی، مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَ نَّہُمْ أَ صْحَابُ الْجَحِیمِ} [التوبۃ: ۱۱۳] قَالَ: فَنَزَلَتْ فِیہِ {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَ حْبَبْتَ} [القصص: ۵۶]۔ (مسند احمد: ۲۴۰۷۴)

۔ مسیب سے روایت ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس داخل ہوئے، جبکہ اس کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، یہ ایسا کلمہ ہے کہ میں اس کے ذریعہ آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بحث مباحثہ کروں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابو طالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کر جاؤ گے، وہ یہی بات دوہراتے رہے اور ورغلاتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر (مر رہا) ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تیرے لیے استغفار کرتا رہوں گا تا وقتیکہ مجھے منع کر دیا جائے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔} … اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَائُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔} … بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو پسند کرے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
Haidth Number: 8626
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۶۲۶) تخریج: أخرجہ البخاری: ۳۸۸۴، ۴۶۷۵، ومسلم: ۲۴ (انظر: ۲۳۶۷۴)

Wazahat

فوائد:… امام نووی نے کہا: اس پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ…} والی آیت ابوطالب کے بارے میںنازل ہوئی۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور کسی کا ہدایت قبول کرنا یا نہ کرنا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قبضے کی چیز نہیں ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر تو صرف اللہ تعالی کا پیغام پہنچادینے کا فریضہ ہے، ہدایت کا مالک اللہ تعالی ہے، وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبولِ ہدایت کی توفیق بخشتا ہے۔ جیسے ارشادِ باری تعالی ہے: {لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ} … تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں ہے۔ نیز ارشادِ باری تعالی ہے: {وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ}… گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہیں۔ یہ اللہ کے علم میں ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے اور ضلالت کا حقدار کون ہے۔