Blog
Books
Search Hadith

{اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ…} کی تفسیر

۔ (۸۶۴۴)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی قَوْلِہِ: {کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ} [ابراہیم: ۲۴] قَالَ: ((ہِیَ الَّتِی لَا تَنْفُضُ وَرَقُہَا وَظَنَنْتُ أَنَّہَا النَّخْلَۃُ۔)) (مسند احمد: ۵۶۴۷)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت {کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ}کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ وہ درخت ہے، جس کے پتے نہیں جھڑتے، اور میرا خیال تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔
Haidth Number: 8644
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۶۴۴) تخریج: اسنادہ ضعیف لضعف شریک بن عبد اللہ النخعی (انظر: ۵۶۴۷)

Wazahat

فوائد:… ارشادِ باری تعالی ہے: {اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَائِ۔ تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْیَتَذَکَّرُوْنَ۔} (سورۂ ابراہیم: ۲۴، ۲۵) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ حافظ ابن کثیر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اپنی تفسیر میں کہا: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ سے مراد لا الہ الا اللہ کی شہادت ہے، پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے، اس کی جڑ مضبوط ہے، یعنی مومن کے دل میں لا الہ الا اللہ جما ہوا ہے، اس کی شاخ آسمان میں ہے، یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ اور بھی بہت سے مفسرین سے یہیمروی ہیں کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام، مومن کھجور کے درخت کے مثل ہے، ہر وقت، ہر صبح، ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دیکھ کر اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ درج ذیل حدیث میں اس درخت کی مزید وضاحت کی گئی ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً لَا یَسْقُطُ وَرَقُھَا، وَإِنَّھَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُوْنِیْ مَاھِیَ؟)) فَوَقَعَ النَّاسُ فِیْ شَجَرِ الْبَوَادِیْ۔ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: وَوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ أَ نَّھَا النَّخْلَۃُ، فَاسْتَحْیَیْتُ ثُمَّ قَالُوْا: حَدِّثْنَا مَا ھِیَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((ھِیَ النَّخْلَۃُ۔)) (صحیح بخاري: ۶۱، ۶۲، ۱۳۱، صحیح مسلم: ۸/۱۳۷) ایک درخت ہے، اس کے پتے نہیں جھڑتے، مومن کی مثال اس درخت کی سی ہے، مجھے بتلاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگ جنگل کے مختلف درختوں کے بارے میں غور و خوض کرنے لگ گئے۔ عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرا خیال تھا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، لیکن میں بیان کرنے سے شرما رہا تھا۔ بالآخر صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ خود ہی وضاحت کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کھجور کا درخت ہے۔ کھجور کے درخت کا پھل پکنے سے پہلے کئی مراحل میںکھایا جاتا ہے، اس کی گٹھلی جانوروں کے چارے میں استعمال ہوتی ہے، آجکل کہا جاتا ہے کہ کھجور کی گٹھلی دل کے مریضوں کے لیے مفید ہے، یہ پھل تیار ہونے کے بعد عرصہ دراز تک خشک کھجور کی شکل میں باقی رہتا ہے۔ یہ درخت سال کے بارہ مہینے سر سبز رہتا ہے۔ اس کے پتوں سے چٹایاں اور رسیاں بنائی جاتی ہے۔ غرضیکہ کسی نہ کسی انداز میں یہ درخت فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور سال کے ہر موسم میں۔ یہی مومن کی مثال ہے کہ اس کا وجود زمان و مکاں سے بالاتر ہو کر مبارک ہے، وہ ہر کس و ناکس اور ادنی و اعلی کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ پیش آتا ہے، وہ ہر ایک کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے، کسی فرد کو اس کی وجہ سے نقصان نہیں ہوتا اور نہ کسی کو اس کے وجود سے کسی قسم کا خطرہ رہتا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے بلا امتیاز لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ نیز وہ ایسے انداز میں زندگی گزارتا ہے کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی زندگی سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔