Blog
Books
Search Hadith

سورۂ حجر {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ…}کی تفسیر

۔ (۸۶۴۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَتِ امْرَأَۃٌ حَسْنَائُ تُصَلِّی خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَکَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ یَسْتَقْدِمُ فِی الصَّفِّ الْأَ وَّلِ لِئَلَّا یَرَاہَا، وَیَسْتَأْخِرُ بَعْضُہُمْ حَتّٰییَکُونَ فِی الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ، فَإِذَا رَکَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطَیْہِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی شَأْنِہَا: {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ} [الحجر: ۲۴]۔ (مسند احمد: ۲۷۸۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک حسین عورت، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتی تھی، کچھ لوگ اس نظریے سے اگلی صف میں کھڑے ہوتے تھے تاکہ وہ اس کو دیکھ نہ سکیں اور کچھ لوگ آخری صف میں اس نیت سے کھڑے ہوتے تھے کہ جب وہ رکوع کریں گے تو بغلوں کے نیچے سے اسے دیکھیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا: {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ} … ہم تم میں سے آگے والوں کو بھی جانتے ہیں اور پیچھے والوں کو بھی جانتے ہیں۔
Haidth Number: 8647
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۶۴۷) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی ۔ أخرجہ ابن ماجہ: ۱۰۴۶، والترمذی: ۳۱۲۲، والنسائی: ۲/ ۱۱۸(انظر: ۲۷۸۳)

Wazahat

فوائد:… امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: حافظ ابن کثیر نے (تفسیر القرآن العظیم: ۵/ ۱۲۔ ۱۳) میں کہا: یہ بڑی غریب اور ناقابل تسلیم خبر ہے۔ لیکن میں (البانی) کہتا ہوں: حافظ ابن کثیر نے جس غرابت اور تفرد کا دعوی کیا ہے، دوسرے طرق کی وجہ سے اس کی نفی ہو جاتی ہے، … ان طرق میں اگرچہ ضعف پایا جاتا ہے، لیکن وہ ایک دوسرے کو قوی کرتے ہیں اور حدیث قابل عمل بن سکتی ہے۔ ان تمام طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت نماز کی صفوں کے بار ے میں نازل ہوئی،۔ رہا مسئلہ اس حدیث کے ناقابل تسلیم ہونے کا، تو ممکن ہے کہ حافظ صاحب کی مراد یہ ہو کہ یہ متن معقول المعنی نہیں ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میںنمازی صحابہ ایک عورت کو دیکھنے کی خاطر پچھلی صفوں میں کھڑے ہوں؟ ہم اس کا جواب یوں دیں گے کہ جب روایت ثابت ہو جاتی ہے تو غور وفکر کرنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے، حدیث کے ثبوت کے بعد اس کی نکارت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، اگر ہم عقل کو معیار بنائیں گے تو کئی احادیث ِ صحیحہ کا انکار لازم آئے گا، یہ روش اہل السنّہ اور اہل الحدیث کو زیب نہیں دیتی،یہ تو معتزلہ اور خواہش پرست لوگوں کا رویہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ پچھلی صفوں میں کھڑے ہونے والے یہ لوگ منافق ہوں یا نو مسلم صحابہ ہوں، جو اُس وقت تک اپنے آپ کو مکمل طور پر اسلامی آداب و اخلاق کے سانچے میں نہ ڈھال سکے ہوں۔ (صحیحہ: ۲۴۷۲)