Blog
Books
Search Hadith

خضر علیہ السلام کا موسی علیہ السلام کے ساتھ قصہ

۔ (۸۶۶۸)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کُنَّا عِنْدَہُ فَقَالَ الْقَوْمُ: إِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعُمُ أَنَّ الَّذِی ذَہَبَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لَیْسَ مُوسٰی بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَّکِئًا فَاسْتَوٰی جَالِسًا فَقَالَ: کَذَلِکَ یَا سَعِیدُ! قُلْتُ: نَعَمْ، أَ نَا سَمِعْتُہُ یَقُولُ ذَاکَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَذَبَ نَوْفٌ، حَدَّثَنِی أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: أَ نَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی صَالِحٍ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی أَ خِی عَادٍ۔))، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ مُوسٰی علیہ السلام بَیْنَا ہُوَ یَخْطُبُ قَوْمَہُ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ قَالَ لَہُمْ: مَا فِی الْأَ رْضِ أَ حَدٌ أَ عْلَمُ مِنِّی، وَأَ وْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَیْہِ أَ نَّ فِی الْأَ رْضِ مَنْ ہُوَ أَ عْلَمُ مِنْکَ، وَآیَۃُ ذٰلِکَ أَ نْ تُزَوِّدَ حُوتًا مَالِحًا، فَإِذَا فَقَدْتَہُ فَہُوَ حَیْثُ تَفْقِدُہُ، فَتَزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا فَانْطَلَقَ ہُوَ وَفَتَاہُ حَتَّی إِذَا بَلَغَ الْمَکَانَ الَّذِی أُمِرُوْا بِہِ، فَلَمَّا انْتَہَوْا إِلَی الصَّخْرَۃِ انْطَلَقَ مُوسٰییَطْلُبُ، وَوَضَعَ فَتَاہُ الْحُوتَ عَلَی الصَّخْرَۃِ، وَاضْطَرَبَ فَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ فَتَاہُ: إِذَا جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثْتُہُ، فَأَ نْسَاہُ الشَّیْطَانُ، فَانْطَلَقَا فَأَ صَابَہُمْ مَا یُصِیبُ الْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْکَلَالِ، وَلَمْ یَکُنْیُصِیبُہُ مَا یُصِیبُالْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْکَلَالِ حَتّٰی جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِہِ، فَقَالَ مُوسٰی لِفَتَاہُ: {آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدْ لَقِینَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا} قَالَ لَہُ فَتَاہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! {أَ رَأَ یْتَ إِذْ أَ وَیْنَا إِلَی الصَّخْرَۃِ فَإِنِّی نَسِیتُ} أَ نْ أُحَدِّثَکَ {وَمَا أَ نْسَانِیہُ إِلَّا الشَّیْطَانُ} قَالَ: أُخْبِرْتُ أَ نَّ عِنْدَکَ عِلْمًا فَأَ رَدْتُ أَ نْ أَ صْحَبَکَ {قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا} {قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا وَلَا أَ عْصِی لَکَ أَ مْرًا} قَالَ: {فَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہِ خُبْرًا} قَالَ: قَدْ أُمِرْتُ أَ نْ أَ فْعَلَہُ، {قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا} {قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِی فَلَا تَسْأَ لْنِی عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی أُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا، فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا رَکِبَا فِی السَّفِینَۃِ} خَرَجَ مَنْ کَانَ فِیہَا وَتَخَلَّفَ لِیَخْرِقَہَا قَالَ: فَقَالَ لَہُ مُوسَی: تَخْرِقُہَا لِتُغْرِقَ أَ ہْلَہَا {لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا إِمْرًا} {قَالَ أَ لَمْ أَ قُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا، قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ وَلَا تُرْہِقْنِی مِنْ أَ مْرِی عُسْرًا} فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا أَ تَوْا عَلٰی غِلْمَانٍ یَلْعَبُونَ عَلٰی سَاحِل الْبَحْرِ، وَفِیہِمْ غُلَامٌ لَیْسَ فِی الْغِلْمَانِ غُلَامٌ أَ نْظَفَ یَعْنِی مِنْہُ، فَأَ خَذَہُ فَقَتَلَہُ، فَنَفَرَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام عِنْدَ ذٰلِکَ وَقَالَ: {أَ قَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ أَ لَمْ أَ قُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: فَأَ خَذَتْہُ ذَمَامَۃٌ مِنْ صَاحِبِہِ وَاسْتَحٰی، فَقَالَ: {اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَھَا فَلَا تُصَاحِبْنِیْ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّیْ عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قَرْیَۃٍ} لِئَامًا {اسْتَطْعَمَا أَ ہْلَہَا} وَقَدْ أَ صَابَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ جَہْدٌ فَلَمْ یُضَیِّفُوہُمَا، {فَوَجَدَا فِیہَا جِدَارًا یُرِیدُ أَ نْ یَنْقَضَّ فَأَقَامَہُ} قَالَ لَہُ مُوسٰی مِمَّا نَزَلَ بِہِمْ مِنْ الْجَہْدِ: {لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَیْہِ أَ جْرًا، قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیْنِی وَبَیْنِکَ} فَأَ خَذَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بِطَرَفِ ثَوْبِہِ فَقَالَ: حَدِّثْنِی فَقَالَ: {أَ مَّا السَّفِینَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِینَیَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ} {وَکَانَ وَرَائَ ہُمْ مَلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَۃٍ غَصْبًا} فَإِذَا مَرَّ عَلَیْہَا فَرَآہَا مُنْخَرِقَۃً تَرَکَہَا وَرَقَّعَہَا أَ ہْلُہَا بِقِطْعَۃِ خَشَبَۃٍ فَانْتَفَعُوا بِہَا، وَأَ مَّا الْغُلَامُ فَإِنَّہُ کَانَ طُبِعَ یَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا، وَکَانَ قَدْ أُلْقِیَ عَلَیْہِ مَحَبَّۃٌ مِنْ أَ بَوَیْہِ وَلَوْ أَ طَاعَاہُ لَأَ رْہَقَہُمَا: {طُغْیَانًا وَکُفْرًا} {فَأَ رَدْنَا أَ نْ یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا} وَوَقَعَ أَ بُوہُ عَلَی أُمِّہِ فَعَلِقَتْ فَوَلَدَتْ مِنْہُ خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا، {وَأَ مَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِیَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَۃِ، وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا، وَکَانَ أَ بُوہُمَا صَالِحًا، فَأَ رَادَ رَبُّکَ أَ نْ یَبْلُغَا أَ شُدَّہُمَا، وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا، رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِی، ذٰلِکَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا}۔ (مسند احمد: ۲۱۱۱۸)

۔ سعید بن جبیر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس بیٹھے تھے،کچھ لوگوں نے بتایا کہ نوف شامی بکالی کہتا ہے کہ جو موسی حصولِ علم کے لئے سیدنا خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے، وہ بنی اسرائیل والے موسیٰ علیہ السلام نہ تھے، یہ سن کر سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے سعید! کیا وہ ایسا ہی کہتاہے؟ میںنے کہا: جی میں نے خود اس سے یہی سنا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: وہ غلط کہتا ہے، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہم پر اور صالح علیہ السلام پر رحمت کرے اور اللہ تعالیٰ ہم پر اور عاد قوم والے میرے پیغمبر بھائی ہود علیہ السلام پر رحمت کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے ایکدفعہ اپنی قوم سے خطاب کیا اور ان سے کہا: روئے زمین میں مجھ سے بڑھ کر عالم کوئی نہیں ہے، اللہ تعالی نے ان کی جانب وحی کی کہ فلاں زمین میں تم سے زیادہ علم والا آدمی موجود ہے اوراس سے ملاقات کی علامت یہ ہے کہ ایک نمکین مچھلی لو، جہاں وہ ہاتھ سے نکل جائے، وہ وہاں ہوگا، پس موسیٰ علیہ السلام نے نمکین مچھلی لی اور اپنے نوجوان شاگرد یوشع بن نون کے ساتھ چل دئیے، جس جگہ کا حکم ملا تھا، جب وہاں پہنچے توایک چٹان تھی، جب اس تک گئے تو موسیٰ علیہ السلام کوئی چیز تلاش کرنے گئے اور ان کے شاگرد نے مچھلی چٹان پر رکھی، وہ حرکت میں آئی اور سمندر میں رستہ بنا لیا، شاگرد کہنے لگا کہ سیدنا موسیٰ آئیں گے تو انہیں بتادوں گا، لیکن شیطان نے اسے بھلا دیا اوروہ آگے کو چلتے رہے حتیٰ کہ جب انہیں مسافروں کی مانند تھکاوٹ محسوس ہوئی، اور تھکاوٹ مطلوبہ جگہ سے آگے گزر جانے کے بعد محسوس ہوئی، تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد سے کہا: ہمیں کھانا دو، اس سفر نے تو ہمیں تھکا دیا ہے، شاگرد نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، تو مچھلی نے وہاں حرکت کی، لیکن میں بتانا بھول گیا تھا، یہ شیطان ہی نے بھلایاہے تواس مچھلی نے سمندر میں جگہ بنا لی تھی، موسی علیہ السلام نے کہا کہ وہی مقام ہماری مطلوبہ جگہ ہے، اب پچھلے پائوں انہی نشانات قدم پر واپس آئے، جب اسی چٹان تک پہنچے تووہاں گھومے، اچانک دیکھتے ہیں کہ خضر علیہ السلام کپڑا لئے موجود ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے ان پر سلام کہا، انہوں نے سراٹھایا اور کہا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں، انھوں نے پوچھا: کون سا موسیٰ؟ انھوں نے کہا: بنو اسرائیل والے موسیٰ، پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تمہارے پاس علم ہے، میں چاہتاہوں کہ تمہاری رفاقت میں رہ کر وہ علم حاصل کروں، انہوں نے کہا: تم اس کے حصول کی طاقت نہیں رکھتے، انھوں نے کہا:آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا، خضر علیہ السلام نے کہا:جس کی آپ کو خبر نہیں اس پر تم صبر نہیں کر سکو گے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: مجھے چونکہ حکم ملاہے، اس لئے میں صبر کروں گا، خضر علیہ السلام نے کہا: اگر تم میرے سنگ چلے ہو تو پھر جو بھی میں کرتا جاؤں، تم نے نہیں بولنا،میں خود ہی وضاحت کر دوں گا۔ اب دونوں چلے، کشتی میں سوار ہوئے، جب وہ رکی تو اس کی سواریاں باہر چلی گئیں تو یہ پیچھے رہ گئے اور انھوں نے اس میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ تم نے اس میں سوراخ کر دیا ہے، کشتی میں بیٹھنے والوں کو غرق کرنا چاہتے ہو، یہ تو اچھا کام نہیں کیا، خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے تم سے کہاتھا کہ تم اس سفر میں میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا:میں بھول گیا ہوں، اس پرمؤاخذہ نہ کریںاور تنگ نہ ہوں، پھر چل پڑے اور سمندر کے کنارے پرپہنچ گئے، وہاں بچے کھیل رہے تھے، ان میں ایک بچہ سب سے زیادہ صاف ستھراتھا، خضر علیہ السلام نے اسے پکڑا اور قتل کر دیا، اب کی بات پھر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے اورکہا: ایک ایسی جان کو قتل کر دیا ہے، جس کا کوئی قصور نہیں،یہ تو بہت بری چیز ہوئی ہے، خضر علیہ السلام کے تکرار سے کچھ شرم سی محسوس ہونے لگی، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں اس کے بعد سوال کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ لے جانا،آپ کا عذر معقول ہوگا۔ اب وہ دونوں چلے اور ایک بستی والوں کے پاس آئے اور ان سے کھانا طلب کیا، جبکہ موسیٰ علیہ السلام سخت تھک چکے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے، انہوںنے میزبانی کرنے سے انکار کردیا، پھر خضر علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک دیوار گرنا چاہتی ہے، پس انھوں نے اسے درست کر دیا، اس بار موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اتنی مشقت میں ہم مبتلاہیں، اگر تم چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، خضر علیہ السلام نے کہا: یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا وقت آ گیا ہے، سید ناموسیٰ علیہ السلام نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: جو کچھ آپ نے کیا ہے، اس کاپس منظر تو بیان کردو، خضر علیہ السلام نے کہا: {اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَیَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَاء َہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا۔} (اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔) اب جب وہ بادشاہ کے پاس سے گزرے گی اور وہ اس کو سوراخ زدہ دیکھے گا تو اس کو چھوڑ دے گا، اور (یہ نقص اتنا بڑا بھی نہیں ہے) اس کا مالک لکڑی کا ٹکڑا لگا کا اس کی مرمت کر لے گا اور پھر یہ لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے، رہا مسئلہ بچے کو قتل کرنے کا تو اس پر کافر کی مہر لگ چکی تھی، جبکہ اس کے والدین اس سے محبت کرتے تھے، اگر اس معاملے وہ اس کی اتباع کرتے تو وہ ان کو کفر اور سرکشی میں پھنسا دیتا، پس{فَأَ رَدْنَا أَ نْ یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا} (اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔)، اُدھر اس خاوند نے جب اپنی بیوی سے جماع کیا تو اسے حمل ہو گیا اور اس نے بہترین پاکیزگی والا اور بہت صلہ رحمی کرنے والا بچہ جنم دیا۔ {وَأَ مَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِیَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَۃِ، وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا، وَکَانَ أَ بُوہُمَا صَالِحًا، فَأَ رَادَ رَبُّکَ أَ نْ یَبْلُغَا أَ شُدَّہُمَا، وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا، رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَ مْرِی، ذٰلِکَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا}۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔
Haidth Number: 8668
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۶۶۸) تخریج: انظر الحدیث السابق

Wazahat

Not Available