Blog
Books
Search Hadith

{وَالَّذِیْنَیُؤْتُوْنَ مَا اُتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ} کی تفسیر

۔ (۸۶۸۴)۔ عَنْ عَائِشَۃَ: أَ نَّہَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ {الَّذِینَیُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَ نَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ} یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہُوَ الَّذِییَسْرِقُ وَیَزْنِی وَیَشْرَبُ الْخَمْرَ وَہُوَیَخَافُ اللّٰہَ، قَالَ: ((لَا یَا بِنْتَ أَ بِی بَکْرٍ یَا بِنْتَ الصِّدِّیقِ! وَلٰکِنَّہُ الَّذِییُصَلِّی وَیَصُومُ وَیَتَصَدَّقُ وَہُوَ یُخَافُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۵۷۷۷)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آیت: {الَّذِینَیُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَ نَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ}… اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں (سورۂ مومنون: ۶۰) میں نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) کیا اس آیت کا مصداق وہ آدمی ہے، جو چوری کرنے والا، زنا کرنے والا اور شراب پینے والا ہو، جبکہ وہ ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے بھی ڈر رہا ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اے بنت ِ صدیق! اس آیت سے مراد وہ آدمی ہے، جو نماز بھی پڑھتا ہے، روزے بھی رکھتا ہے اور صدقہ بھی کرتا ہے، لیکنیہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اعمال قبول ہی نہ ہوں۔
Haidth Number: 8684
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۶۸۴) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی أخرجہ الترمذی: ۳۱۷۵ (انظر: ۲۵۲۶۳)

Wazahat

فوائد:…امام البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ لکھتے ہیں: مومنوں کو نیک اعمال سر انجام دینے کے بعد یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال قبول ہی نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو پورا اجر نہ ملنے کا خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ کرتے ہوئے فرمایا: {فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ } (سورۂ نسا: ۱۷۳) پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کو ان کا پورا پورا ثواب عنایت فرمائے گا۔ بلکہ اضافے کے ساتھ اجر و ثواب عطا کرے گا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {لِیُوَفِّیَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَ یَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ } (سورۂفاطر: ۳۰) تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اوران کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے۔ اور اللہ تعالیٰ وعدے کی مخالفت نہیں کرتا۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قبولیت کا تعلق عملِ صالح کے صحیح سر انجام پانے سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے پاس اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ان کا عمل اللہ تعالیٰ کی مراد و منشا کے مطابق ہے، بلکہ ان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ انھوں نے اس عمل کو پورا کرنے میں کوتاہی برتی ہے، اس لیے وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسانہ ہو کہ کسی کمی بیشی کی بنا پر اعمالِ صالحہ قبول ہی نہ ہوں۔ جب مومن یہ بات سوچتا ہے تو اس میں یہ حرص پیدا ہوتی ہے کہ اس کی عبادت میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق حسن پیدا ہونا چاہیے اور اس مقصد کو پورا کرنے کا طریقہیہہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیرت و کردار کی پیروی کی جائے اور پر خلوص انداز میں اعمالِ صالحہ سرانجام دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کایہ مفہوم ہے: {فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖفَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا} (سورۂ کہف: ۱۱۰) جو بندہ اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے، وہ نیک عمل کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک اور ساجھی نہ ٹھہرائے۔ امام ابن تیمیہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے اپنے رسالے (التوبۃ) میں اس حدیث پر بڑا عمدہ کلام کیا ہے، اس کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔ (صحیحہ: ۱۶۲) یہ مومن کی پہچان ہے کہ نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں اور صدقہ و خیرات جیسے عظیم اعمال میں حصہ لیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال قبول ہی نہ کرے اور جب ہم اس کی بارگاہ میں اجر و ثواب وصول کرنے جائیں تو وہ ہمیں دھتکار دے۔ یہ فکر دامن گیر کر کے وہ نئے عزم اور نئے ولولے کے ساتھ حسنات و خیرات میں حصہ لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے درپے ہیں۔