Blog
Books
Search Hadith

{وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ…} کی تفسیر

۔ (۸۷۱۳)۔ عَنْ عَامِرٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ: لَوْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَاتِمًا شَیْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْہِ لَکَتَمَ ہٰذِہِ الْآیَاتِ عَلٰی نَفْسِہِ: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَ نْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَأَ نْعَمْتَ عَلَیْہِ أَ مْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ أَ حَقُّ أَ نْ تَخْشَاہُ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَکَانَ أَ مْرُ اللّٰہِ مَفْعُولًا} [الأحزاب: ۳۷]۔ (مسند احمد: ۲۶۵۶۹)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کا کوئی حصہ چھپانا ہوتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان آیات کو چھپا لیتے: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَ نْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ … … وَکَانَ أَ مْرُ اللّٰہِ مَفْعُولًا}۔
Haidth Number: 8713
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۱۳) تخریج: أخرجہ البخاری: ۴۶۱۲، ۴۸۵۵، ۷۳۸۰، ۷۵۳۱، ومسلم: ۱۷۷(انظر: ۲۶۰۴۱)

Wazahat

فوائد:… پوری آیتیوں ہے: {وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـیہُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَایِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔} (سورۂ احزاب: ۳۷) اور جب تو اس شخص سے جس پر اللہ نے انعام کیا اور جس پر تونے انعام کیا کہہ رہا تھا کہ اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھاجسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا، تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو، جب وہ ان سے حاجت پوری کر چکیں اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے (پورا) کیا ہوا ہے۔ اس باب کا مفہوم درج ذیل ہے: سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جو اگرچہ اصلاً عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطورِ غلام بیچ دیا، جب خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی شادی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہوئی تو انھوں نے یہ غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہبہ کر دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو آزاد کر کے اپنا لے پالک بیٹا بنا لیا اور بعد میں اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شادی کر دی، بہرحال مزاج میں فرق برقرار رہا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جبکہ سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دامن پر غلامی کا داغ تھا، سو ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی، جس کا تذکرہ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبیکریم سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ ظاہر کرتے رہتے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین کرتے، اُدھر اللہ تعالی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرما دیا تھا کہ زید کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب کا نکاح آپ سے کر دیا جائے گا، تاکہ جاہلیت کی منہ بولا بیٹا بنانے کی اس رسم پر ایک کاری ضرب لگا کر واضح کر دیا جائے کہ لے پالک بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے، ان آیات میں انہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا ہے، حالانکہ جب اللہ تعالی کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی، ذہن نشین رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ خوف فطری تھا، لیکن اس کے باوجود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تنبیہ فرمائی گئی، چونکہ اللہ تعالی نے آپ کے اس فطری خوف کابھی ذکر کر دیا، اس لیے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہے کہ اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی وحی چھپانی ہوتی تو ان آیات کو چھپا لیتے۔ سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کانکاح معروف طریقے کے برعکس صرف اللہ کے حکم سے قرار پا گیا،یعنی نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بلا اجازت سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس چلے گئے، کیونکہ وہ آسمانی فیصلے کے مطابق آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی بن چکی تھیں۔ سبحان اللہ! کتنا بڑا شرف ہے سیدہ کا۔