Blog
Books
Search Hadith

سورۂ سبا سبا اور اس کی اولاد کا ذکر

۔ (۸۷۲۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ أَ نَّ رَجُلًا سَأَ لَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ سَبَأٍ مَا ھُوَ أَ رَجُلٌ أَمْ اِمْرَأَ ۃٌ أَمْ أَرْضٌ؟ فَقَالَ: ((بَلْ ھُوَ رَجُلٌ وَلَدَ عَشَرَۃً فَسَکَنَ الْیَمَنَ مِنْھُمْ سِتَّۃٌ، وَبِالشَّامِ مِنْھُمْ أَ رْبَعَۃٌ،فَأَ مَّا الْیَمَانِیُّوْنَ فَمَذْحِجٌ وَکِنْدَۃٌ وَالْأَ زْدُ، وَالْأَ شْعَرِیُّوْنَ وَأَ نْمَارٌ، وَحِمْیَرُ عَرَبًا کُلَّھَا، وَأَ مَّا الشَّامِیَّۃُ فَلَخْمٌ وَجُذَامُ وَعَامِلَۃُ وَغَسَّانُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۹۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سبا کے بارے میں سوال کیا کہ وہ مرد تھا یا عورت یا زمین کانام ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مرد تھا، اس کے دس بچے تھے، ان میں چھ یمن میں اور چار شام میں آباد ہوئے، پس یمنییہ ہیں: مذحج، کندہ، ازد، اشعری، انمار اور حمیر،یہ سارے کے سارے عرب تھے اور شامییہ ہیں: لخم، جذام، عاملہ اور غسان۔
Haidth Number: 8725
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۲۵) تخریج: اسنادہ حسن ۔ أخرجہ الحاکم: ۲/ ۴۲۳ (انظر: ۲۸۹۸)

Wazahat

فوائد:… دس بچے ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ دس آدمی سبا کی نسل میں سے ہیں،کوئی اس کا بیٹا ہے، کوئی پوتا اور پڑپوتا وغیرہ۔ سورۂ سباء کی درج ذیل آیت میں میں سباء کا ذکر کیا گیا ہے:{لَقَدْ کَانَ لِسَـبَاٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ اٰیَۃٌ جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہ بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ۔} (سورۂ سبائ: ۱۵) سبا کے لیے ان کی اپنے مسکن میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا۔ حافظ ابن کثیر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے کہا: قوم سبایمن میں رہتی تھی، تبع بھی ان میں سے ہی تھے، بلقیس بھی انہی میں سے تھیں،یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے، چین سے زندگی گذار رہے تھے، اللہ کے رسول ان کے پاس آئے اور ان کو شکر کرنے کی تلقین کی، رب کی وحدانیت کی طرف بلایا، اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا، کچھ زمانے تک تو یہ لوگ یونہی رہے، لیکن پھر جبکہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی۔ احکام اللہ بے پرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک، باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہو گئیں۔ حافظ صاحب کچھ روایات بیان کرنے کے بعد پھر کہتے ہیں: آب و ہوا کی عمدگی، صحت، مزاج اور اعتدال عنایت الہیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے، یہ اس لئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں،یہ تھی وہ اللہ کی طرف سے نشانی جس کا ذکر ان آیات میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیو اور اس کے شکر میں لگے رہو، لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے۔ جیسے کہ ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ {وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ۔}… میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں۔ (سورۂ نمل: ۲۲) ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں، عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے۔ رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر کھا ہے۔ بے راہ ہو رہے ہیں۔ مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے۔ بالاخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کر دی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئیں، پانی کی ریل پیل ہو گئی دریاؤں کے، چشموں کے، بارش کے، نالوں کے، سب پانی آ گئے، ان کی بستیاں ان کے محلات ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہو گئیں، ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی، پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا، پیلو، جھاؤ، کیکر، ببول اور ایسے ہی بے میوہ بدمزہ بیکار درخت اگتے تھے۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کارآمد تھے۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خاردار اور بہت کم پھل دار تھے۔ یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زخموں میں مبتلا ہوگئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ابو خیرہ کہتے ہیں گناہوں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے، روزگار میں تنگی واقع ہو، لذتوں میں سختی آ جائے، یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا۔