Blog
Books
Search Hadith

{وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہُ…} کی تفسیر

۔ (۸۷۲۶)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قَالَ رَبُّنَا تَبَارَکَ اسْمُہُ إِذَا قَضٰی أَ مْرًا سَبَّحَ حَمَلَۃُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَ ہْلُ السَّمَائِ الَّذِینَیَلُونَہُمْ حَتّٰییَبْلُغَ التَّسْبِیحُ ہٰذِہِ السَّمَائَ الدُّنْیَا، ثُمَّ یَسْتَخْبِرُ أَ ہْلُ السَّمَائِ الَّذِینَیَلُونَ حَمَلَۃَ الْعَرْشِ، فَیَقُولُ الَّذِینَیَلُونَ حَمَلَۃَ الْعَرْشِ لِحَمَلَۃِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ فَیُخْبِرُونَہُمْ، وَیُخْبِرُ أَ ہْلُ کُلِّ سَمَائٍ سَمَائً حَتّٰییَنْتَہِیَ الْخَبَرُ إِلٰی ہٰذِہِ السَّمَائِ، وَیَخْطِفُ الْجِنُّ السَّمْعَ، فَیُرْمَوْنَ فَمَا جَائُ وْا بِہِ عَلٰی وَجْہِہِ فَہُوَ حَقٌّ، وَلٰکِنَّہُمْ یُقْذَفُونَ وَیَزِیدُونَ۔)) قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَیَخْطِفُ الْجِنُّ وَیُرْمَوْنَ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب ہمارا ربّ، جس کانام بہت زیادہ بابرکت ہے، کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں،پھر ان کے قریب والے فرشتے جو اس آسمان میں ہیں، وہ تسبیح بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں،یہاں تک کہ تسبیح کا یہ سلسلہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے، پھر حاملین کے قریب والے آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: تمہارے ربّ نے کیا کہا ہے؟ پس وہ ان کو خبر دیتے ہیں، پھر ایک آسمان والے اگلے نچلے آسمان والے کو بتلاتے ہیں،یہاں تک کہ بات آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتی ہے، اس سے جن بات کو اچکتے ہیں اور سن لیتے ہیں، پھر انہیں شعلے مارے جاتے ہیں اور (اگر وہ بچ جائیں تو سنی ہوئی بات میں کوئی جھوٹ ملاتے ہیں۔ عبدالرزاق راوی نے کہا: جن بات اچکتے ہیںاوران پر شعلے پھینکے جاتے ہیں۔
Haidth Number: 8726
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۲۶) تخریج: أخرجہ مسلم: ۲۲۲۹(انظر: ۱۸۸۲)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث میں درج ذیل آیت کی تفسیر بیان کی گئی ہے: {وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہ حَتّیٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ۔} (سورۂ سبائ: ۲۳) اور سفارش اس کے ہاں نفع دیتی نہیں مگر جس کے لیے وہ اجازت دے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا ؟ وہ کہتے ہیں حق (فرمایا) اور وہی سب سے بلند، بہت بڑا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں اس آیت متعلقہ درج ذیل تفصیل بیان کی گئی ہے: سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَ مْرَ فِی السَّمَائِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِکَۃُ بِأَ جْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلٰی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذٰلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہٰکَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ وَفَرَّجَ بَیْنَ أَ صَابِعِ یَدِہِ الْیُمْنٰی نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَ دْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَ نْ یَرْمِیَ بِہَا إِلٰی صَاحِبِہِ فَیُحْرِقُہُ وَرُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰییَرْمِیَ بِہَا إِلَی الَّذِییَلِیہِ إِلَی الَّذِی ہُوَ أَ سْفَلَ مِنْہُ حَتّٰییُلْقُوہَا إِلَی الْأَ رْضِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ حَتّٰی تَنْتَہِیَ إِلَی الْأَ رْضِ فَتُلْقٰی عَلٰی فَمْ السَّاحِرِ فَیَکْذِبُ مَعَہَا مِائَۃَکَذْبَۃٍ فَیُصَدَّقُ فَیَقُولُونَ أَ لَمْ یُخْبِرْنَایَوْمَ کَذَا وَکَذَا یَکُونُ کَذَا وَکَذَا فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا لِلْکَلِمَۃِ الَّتِی سُمِعَتْ مِنَ السَّمَائِ۔)) جب اللہ تعالیٰ آسمان پر فرشتوں کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ عاجزی کے ساتھ اپنے پر مارنے لگتے ہیں اور غور سے سنتے ہیں اور زنجیر کی سی جھنکار نکلتی ہے، جب فرشتے حکم الٰہی کے خوف سے کچھ بے غم ہوتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے کیا حکم دیا ہے؟ دوسرے کہتے ہیں: جو کچھ فرمایا ہے وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا بلند برتر ہے، فرشتوں کییہ باتیں شیطان چوری سے اڑاتے ہیں اور یہ شیطان اس طرح اوپر تلے رہتے ہیں اور امام سفیان نے انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے ان کی کیفیت کو بیان کیا انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان کچھ کشادگی کرکے ان کو اوپر تلے کیا، پھر کبھی فرشتے خبر ہوتے ہی آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں اور وہ شعلہ باتیں سننے والوں کو قبل اس سے کہ وہ اپنے ساتھ والے کو بتلائے جلا ڈالتا ہے اور کبھی اس شعلہ کے اس تک پہنچنے سے پہلے وہ اپنے ساتھی کو بتا دیتا ہے اور اس طرح یہ باتیں زمین تک آجاتی ہیں، پھر ان باتوں کو نجومی کے منہ پر ڈالا جاتا ہے اور وہ اس ایک بات میں سو جھوٹی باتیں ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے، کوئی کوئی بات اس نجومییعنی جادوگر کی سچ نکل آتی ہے، تو لوگ کہنے لگتے ہیں کہ دیکھو اس نجومی نے ہم سے یہ کہا تھا لہٰذا اس کی بات سچ نکلی، حالانکہ یہ وہی بات ہوتی ہے جو آسمان سے چوری کر لی جاتی ہے۔