Blog
Books
Search Hadith

سورۂ زخرف {وَلَمَّا ضَرَبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا…} کی تفسیر

۔ (۸۷۴۶)۔ عَنْ أَ بِییَحْیٰی مَوْلَی ابْنِ عُقَیْلٍ الْأَ نْصَارِیِّ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَقَدْ عُلِّمْتُ آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ مَا سَأَ لَنِی عَنْہَا رَجُلٌ قَطُّ فَمَا أَ دْرِی أَ عَلِمَہَا النَّاسُ فَلَمْ یَسْأَ لُوا عَنْہَا، أَ مْ لَمْ یَفْطِنُوْا لَہَا فَیَسْأَ لُوْا عَنْہَا، ثُمَّ طَفِقَ یُحَدِّثُنَا فَلَمَّا قَامَ تَلَاوَمْنَا أَ نْ لَا نَکُونَ سَأَ لْنَاہُ عَنْہَا، فَقُلْتُ: أَ نَا لَہَا إِذَا رَاحَ غَدًا فَلَمَّا رَاحَ الْغَدَ، قُلْتُ: یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! ذَکَرْتَ أَ مْسِ أَ نَّ آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ لَمْ یَسْأَ لْکَ عَنْہَا رَجُلٌ قَطُّ فَلَا تَدْرِی أَ عَلِمَہَا النَّاسُ فَلَمْ یَسْأَ لُوا عَنْہَا أَ مْ لَمْ یَفْطِنُوا لَہَا، فَقُلْتُ: أَ خْبِرْنِی عَنْہَا، وَعَنِ اللَّاتِی قَرَأْتَ قَبْلَہَا، قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِقُرَیْشٍ: ((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّہُ لَیْسَ أَ حَدٌ یُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللّٰہِ فِیہِ خَیْرٌ۔))، وَقَدْ عَلِمَتْ قُرَیْشٌ أَ نَّ النَّصَارٰی تَعْبُدُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ، وَمَا تَقُولُ فِی مُحَمَّدٍ؟ فَقَالُوْا: یَا مُحَمَّدُ! أَ لَسْتَ تَزْعُمُ أَ نَّ عِیسَی کَانَ نَبِیًّا، وَعَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ صَالِحًا، فَلَئِنْ کُنْتَ صَادِقًا فَإِنَّ آلِہَتَہُمْ لَکَمَا تَقُولُونَ، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّونَ} [الزخرف: ۵۷] قَالَ: قُلْتُ: مَا یَصِدُّونَ، قَالَ یَضِجُّونَ: {وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ} [الزخرف: ۶۱] قَالَ: ہُوَ خُرُوجُ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَام قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۹۱۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:قرآن مجید کی ایک آیت ہے، میں تو اس کو جانتا ہوں، لیکن کبھی کسی آدمی نے اس کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں کیا، اب مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم ہے، اس لیے سوال نہیں کرتے، یا وہ اس کو سمجھ ہینہیں سکے کہ اس کے بارے میں سوال کریں، پھروہ ہم سے اور باتیں کرتے رہے اور جب کھڑے ہو کر چلے گئے تو ہم ایک دوسرے سے ملامت کرنے لگے کہ ہم نے ان سے اس آیت کے بارے میں دریافت ہی نہیں کیا، میں (ابو یحیی) نے کہا:کل جب وہ آئیں گے تو میںپوچھوں گا، چنانچہ جب دوسرے دن آئے تو میں نے کہا: اے ابن عباس ! کل آپ نے ایک آیت کا ذکر کیا تھا کہ اس کے متعلق آپ سے کسی آدمی نے پوچھا نہیں ہے، اب معلوم نہیں لوگوں کوا س کا پتہ چل گیا ہے، اس لیے نہیں پوچھا یا وہ اس کو سمجھ ہی نہ سکے؟ انہوں نے کہا: جی، بتاتا ہوں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریشیوں سے فرمایا: اے قریشیوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی پرستش کی جائے گی، اس میں خیر نہیں ہو گی۔ اب قریشیوں کو پتہ تھا کہ عیسائی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی عبادت کرتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عیسائی، محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہیںیعنی وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نبوت کے منکر ہیں۔ تو قریش کے لوگوں نے کہا:اے محمد! کیا تم ہی لوگ یہ دعوی نہیں کرتے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نبی اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تھے، تو پھر اگر آپ اس بات میں سچے ہیں تو ان کے معبود بھی ویسے ہی ہوئے، جیسے تم کہتے ہو (پس عیسی علیہ السلام میں کوئی خیر نہ رہی)؟ پس اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: {وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّونَ}… جب ان کے لئے مریم کے بیٹے کی مثال بیان کی گئی تو تیری قوم اس سے منہ پھیرتی ہے۔ راوی نے کہا: یَصِدُّونَ کا کیا مطلب ہے، اس نے کہا: شور کرنا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ} حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام کا نکلنا قیامت سے پہلے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
Haidth Number: 8746
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۴۶) تخریج: اسنادہ حسن ۔ أخرجہ مختصرا ابن حبان: ۶۸۱۷ (انظر: ۲۹۱۸)

Wazahat

فوائد:… شرک کی تردید اور جھوٹ معبودوںکی بے وقعتی کی وضاحت کے لیے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم میں جائیں گے، تو اس سے مراد پتھر کی مورتیاں ہوتی تھیں، جن کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے، نہ وہ نیک لوگ، جو اپنی زندگیوں میں لوگوںکو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے ان کو معبود بنا لیا۔ اس لیے مشرکین کا یہ کھوکھلا نقطہ بے وقعت ہو گیا کہ اگر ان کے معبود جہنم میں جائیں گے تو پھر وہ نبی بھی جہنم میں جائیں گے، جن کی عبادت ہونے لگی، العیاذ باللہ۔