Blog
Books
Search Hadith

{اِنَّ الَّذِیْنَیُنَادُوْنَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ} کی تفسیر

۔ (۸۷۶۰)۔ عَنِ الْأَ قْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَ نَّہُ نَادٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَلَمْ یُجِبْہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ لَا إِنَّ حَمْدِی زَیْنٌ وَإِنَّ ذَمِّی شَیْنٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَمَا حَدَّثَ أَ بُو سَلَمَۃَ: ((ذَاکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۸۷)

۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حجروں کے پیچھے کھڑے ہو کر یوں آوا ز دی: اے اللہ کے رسول! لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر پکارا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میری تعریف کرنا زینت ہے اور میری مذمت کرنا عیب ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ شان تو اللہ تعالی کی ہے۔
Haidth Number: 8760
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۶۰) تخریج: اسنادہ ضعیف لانقطاعہ، ابو سلمۃ بن عبد الرحمن لم یثبت سماعہ من الاقرع بن حابس ۔ أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۸۷۸(انظر: ۱۵۹۹۱)

Wazahat

فوائد:… ارشادِ باری تعالی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَیُنَادُوْنَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ۔ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} (سورۂ حجرات: ۴،۵) بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔ اور اگر بے شک وہ صبر کرتے، یہاں تک کہ تو ان کی طرف نکلتا تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حجروں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں، جس طرح بدو لوگوں میں دستور تھا، دراصل ان میں سے اکثر بے عقل ہیں، پھر اس کی بابت ادب سکھایا کہ چاہیے تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر سے باہر تشریف لاتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو بات کرنی ہوتی، کر لیتے، نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے، دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی، پھر اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ایسے لوگوں کو توبہ اوراستغفار کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔