Blog
Books
Search Hadith

سورۂ حشر {مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِیْنَۃٍ…} کی تفسیر

۔ (۸۷۸۸)۔ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَّعَ وَہِیَ الْبُوَیْرَۃُ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَ وْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} [الحشر: ۵]۔ (مسند احمد: ۶۰۵۴)

۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بویرہ جگہ پر بنو نضیر کی کھجوروں کو جلایا اور ان کو کاٹ ڈالا، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَ وْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} … جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا،یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
Haidth Number: 8788
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۸۸) تخریج: أخرجہ البخاری: ۴۰۳۱، ۴۸۸۴، ومسلم: ۱۷۴۶ (انظر: ۶۰۵۴)

Wazahat

فوائد:…مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر حضور ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان یہودیوں سے صلح کر لی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں نہ یہ آپ سے لڑیں، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا تھا، جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان پر غالب کیا اور آپ نے انہیںیہاں سے نکال دیا، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا، خود یہیہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئییہ سب چیزیںیونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آ گئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا، بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے، جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو سامان لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ، اس لئے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جا سکتے تھے، اپنے ساتھ اٹھالیں، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔ اس آیت میںبنونضیر کا ذکر ہے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا محاصرہ کیا تو ان کے کھجور کے درختوں کو آگ لگا دی اور کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے، جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا تھا اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب آ گئے ہیں۔