Blog
Books
Search Hadith

سورۂ جمعہ {وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ} کی تفسیر

۔ (۸۷۹۶)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ أَ نَّہُ قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ نَزَلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْجُمُعَۃِ فَلَمَّا قَرَأَ : {وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ} [الجمعۃ: ۳] قَالَ: مَنْ ہٰؤُلَائِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ فَلَمْ یُرَاجِعْہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی سَأَ لَہُ مَرَّۃً أَ وْ مَرَّتَیْنِ أَ وْ ثَلَاثًا، وَفِینَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ قَالَ: فَوَضَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ عَلٰی سَلْمَانَ وَقَالَ: ((لَوْ کَانَ الْإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہُ رِجَالٌ مِنْ ہٰؤُلَائِ۔)) (مسند احمد: ۹۳۹۶)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ} … اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیںملے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان سے کون سے لوگ مراد ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن جب اس نے ایکیا دو یا تین مرتبہ یہی سوال دوہرایا، جبکہ ہم میں سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی موجود تھے، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرامایا: اگر ایمان ثریا ستاروں کے پاس بھی ہوتا تو ان کی قوم کے آدمی اسے وہاں سے بھی حاصل کرلیتے۔
Haidth Number: 8796
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۷۹۶) تخریج: أخرجہ البخاری: ۴۸۹۸، ومسلم: ۲۵۴۶ (انظر: ۹۴۰۶)

Wazahat

فوائد:…آیت میں آخرین (دوسروں) سے مراد فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لانے والے ہوں گے۔ سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ایمان لانے والے درج ذیل واقعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے کہ اگر ایمان ثریا ستاروں کے پاس بھی ہوتا تو اس کے خاندان کے لوگ اس تک رسائی حاصل کر لیتے۔ یہ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز واقعہ ہے، کتاب کے اواخر میں یہ حدیث آئے گی، قارئین کی دلچسپی کے لیےیہاں صرف ترجمہ سپرد قلم کیا جاتاہے۔ عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانییوں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں اصبہان والوں میں سے ایک فارسی باشندہ تھا،میرا تعلق ان کی ایک جيّ نامی بستی سے تھا، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انھوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کردیا، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جد وجہد سے کام لیا، حتی کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے اسے بجھنے نہ دیتا تھا۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائداد تھی، انھوں نے ایک دن ایک عمارت (کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا: بیٹا! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائداد (تک نہیں پہنچ پاؤں گا)، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ۔ انھوں نے اس کے بارے میں مزید چند (احکام بھی) صادر کئے تھے۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا، میں نے ان کی آوازیں سنیں اور وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا تھا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے۔ (بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کے دین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا: بخدا! یہ دین اُس (مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اس دین کی بنیاد کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: شام میں۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا، (چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انھوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا۔ میں اِس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا)۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: بیٹا! آپ کہاں تھے؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی؟ میں نے کہا: ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، وہ گرجا گھر میں نماز پڑھ رہے تھے، مجھے ان کی کاروائی بڑی پسند آئی۔ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی رہا، حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ میرے باپ نے کہا: بیٹا!اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تمہارا اور تمہارے آباء کا دین اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا: بخدا! ہرگز نہیں، وہ دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ (میرے ان جذبات کی وجہ سے) میرے باپ کو میرے بارے میں خطرہ لاحق ہوا اور انھوں نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے گھر میں پابند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جب شام سے تاجروں کا عیسائی قافلہ آئے تو مجھے خبر دینا۔ (کچھ ایام کے بعد) جب شام سے عیسائیوں کا تجارتی قافلہ پہنچا تو انھوں نے مجھے اس (کی آمد) کی اطلاع دی۔ میں نے ان سے کہا: جب (اس قافلے کے) لوگ اپنی ضروریات پوری کر کے اپنے ملک کی طرف واپس لوٹنا چاہیں تو مجھے بتلا دینا۔ سو جب انھوں نے واپس جانا چاہا تو انھوں نے مجھے اطلاع دے دی۔ میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں اتار پھینکیں اور ان کے ساتھ نکل پڑا اور شام پہنچ گیا۔ جب میں شام پہنچا تو پوچھا: وہ کون سی شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟ انھوں نے کہا: فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اِس دینِ (نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔ لیکن وہ بڑا برا آدمی تھا۔ وہ لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا تھا اور ان کو ترغیب دلاتا تھا۔ جب وہ کئی اشیاء لے کر آتے تھے، تو وہ اپنے لیے جمع کر لیتا تھا اور مساکین کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا، حتی کہ اس کے پاس سونے اور چاندی کے سات مٹکے جمع ہو گئے۔ میں اس کے کرتوتوں کی بنا پر اس سے نفرت کرتا تھا۔ بالآخر وہ مر گیا، اسے دفن کرنے کے لیے عیسائی لوگ پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا: یہ تو برا آدمی تھا، یہ تم لوگوں کو تو صدقہ کرنے کا حکم دیتا اور اس کی ترغیب دلاتا تھا، لیکن جب تم لوگ اس کے پاس صدقہ جمع کرواتے تھے تو یہ اسے اپنے لیے ذخیرہ کر لیتا تھا اور مساکین کو بالکل نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا: تجھے کیسے علم ہوا؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے کی خبر دے سکتا ہوں۔ انھو ںنے کہا: تو پھر ہمیں بتاؤ۔پس میں نے ان کو (اس کے خزانے کا) مقام دکھایا۔ انھوں نے وہاں سے سونے اورچاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔ جب انھوں نے صدقے (کا یہ حشر) دیکھا تو کہنے لگے: بخدا! ہم اس کو کبھی بھی دفن نہیںکریں گے۔ سو انھوں نے اس کو سولی پر لٹکایا اور پھر پتھروں سے اس کو سنگسار کیا۔ بعد ازاں وہ اس کی جگہ پر ایک اور آدمی لے آئے۔ سلمان کہتے ہیں: جو لوگ پانچ نمازیں ادا کرتے تھے، میں نے اس کو ان میں افضل پایا۔ میں نے اسے دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت، آخرت کے معاملے میں سب سے زیادہ رغبت والا اور دن ہو یا رات (عبادت کے معاملات کو) تندہی سے ادا کرنے والا پایا۔ میں نے اس سے ایسی محبت کی کہ اس سے پہلے اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ میں اسی کے ساتھ کچھ زمانہ تک مقیم رہا۔ بالآخر اس کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا۔ میں نے اسے کہا: او فلان! میں تیرے ساتھ رہا اور میں نے تجھ سے ایسی محبت کی کہ اس سے قبل اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ اب تیرے پاس اللہ تعالی کا حکمِ (موت) آ پہنچا ہے، تو خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ اب تو مجھے کس بندۂ (خدا) کے پاس جانے کی نصیحت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! اللہ کی قسم! میں جس دین پر پابند تھا، میرے علم کے مطابق کوئی بھی اس دین کا پیروکار نہیں ہے۔ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور تبدیل ہو گئے ہیں اور جس شریعت کو اپنا رکھا تھا اس کے اکثر امور کو ترک کر دیا ہے۔ ہاں فلاں ایکآدمی موصل میں ہے۔ وہ اسی دین پر کاربند ہے، پس تو اس کے پاس چلے جانا۔ پس میں نے اس کے پاس اقامت اختیار کی، میں نے اسے بہترین آدمی پایا جو اپنے ساتھی کے دین پر برقرار تھا۔ (کچھ عرصے کے بعد اس پر بھی) فوت ہونے کے آثار (دکھائی دینے لگے)۔ جب اس پر وفات کی گھڑی آ پہنچی تو میں نے کہا: او فلاں! فلاں نے تو مجھے تیرے بارے میں وصیت کی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ تیری صحبت میں رہوں۔جب وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں موصل والے آدمی کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں آدمی نے موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تجھ سے آ ملوں۔ اس نے مجھے بتلایا تھاکہ تم بھی اس کے دین پر کاربند ہو۔ اس نے مجھے کہا: (ٹھیک ہے) تم میرے پاس ٹھہر جائو تو میں اس کے پاس ٹھہر گیا تو میں نے اسے اس کے ساتھی کی طرح اچھا آدمی پایا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ فوت ہونے لگا تو میں نے اس کہا مجھے فلان آدمی نے آپ کے پاس بھیجا تھا اب اللہ تعالی کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہونے والا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ اب تو مجھے کیا وصیت کرے گا اور کیا حکم دے گا کہ میں کس کے پاس جاؤں؟ اس نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق تو ہمارے دین پر قائم صرف ایک آدمی ہے، جو نصیبین میں ہے۔ (میری وفات کے بعد) اس کے پاس چلے جانا۔ پس جب وہ فوت ہوا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں نصیبین والے صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اسے اپنے بارے میں اور اپنے (رہنما) کے حکم کے بارے میں مطلع کیا۔ اس نے کہا: میرے پاس ٹھہریئے۔ سو میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ میں نے اس کو اس کے سابقہ دونوں صاحبوں کے دین پر پایا۔ وہ بہترین آدمی تھا جس کے پاس میں نے اقامت اختیار کی۔ لیکن اللہ کی قسم! وہ جلد ہی مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے اسے کہا: او فلاں! فلاں (اللہ کے بندے) نے مجھے فلاں کی (صحبت میں رہنے کی) نصیحت کی تھی، پھر اس نے تیرے پاس آنے کی نصیحت کی۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرے گا یا کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! ہم تو ایسے آدمی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے، جو ہمارے دین پر قائم ہو، کہ تو اس کے پاس جا سکے ۔ البتہ ایک آدمی عموریہ میں ہے۔ وہ دین کے معاملے میں ہماری طرح کا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا، کیونکہ وہ ہمارے دین پر برقرار ہے۔ پس جب وہ بھی مر گیا اور اسے دفن کر دیا گیا، تو میں عموریہ والے (بندۂ خدا) کے پاس پہنچ گیا اور اسے اپنا سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا: تم میرے پاس ٹھہرو۔ میں نے اس کی صحبت اختیار کر لی اور اسے اس کے اصحاب کی سیرت اور دین پر پایا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے پاس کمائی بھی کی، حتی کہ میں کچھ گائیوں اور بکریوں کا مالک بن گیا۔ لیکن اس پر بھی اللہ تعالی کا حکم نازل ہوا، (یعنی موت کی علامات دکھائی دینے لگیں)۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آ پہنچا تو میں نے اسے کہا: او فلاں! میں فلاں (بندۂ خدا) کے پاس تھا، فلاں نے مجھے فلاں کے بارے میں، فلاں نے فلاں کے بارے میں اور اس نے تیرے پاس آنے کی وصیت کی تھی۔ اب تو مجھے کس (کی صحبت میں رہنے) کی وصیت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! میں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو ہمارے دین پر کاربند ہو اور جس کے بارے میں میں تجھے حکم دے سکوں۔ لیکن اب ایک نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے، اسے دینِ ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا ، وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا اور ایسے (شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حرّوں (یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔ وہ ہدیہ (یعنی بطورِ تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا، صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہرِ ختمِ نبوّت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔ جب تک اللہ تعالی کو منظور تھا، میں عموریہ میں سکونت پذیر رہا۔ پھر میرے پاس سے بنو کلب قبیلے کا ایک تجارتی قافلہ گزرا۔ میں نے ان سے کہا: اگر تم مجھے سرزمینِ عرب کی طرف لے جاؤ تو میں تم کو اپنی گائیں اور بکریاں دے دوں گا؟ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پس میں نے اپنی گائیں اور بکریاںان کو دے دیں اور انھوں نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب وہ مجھے وادیٔ قری تک لے کر پہنچے تو انھوں نے مجھ پر ظلم کیا اور بطورِ غلام ایکیہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پس میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ جب میں نے کھجوروں کے درخت دیکھے تو مجھے امید ہونے لگی کہ یہ وہی شہر ہے جو میرے ساتھی نے بیان کیا تھا، لیکنیقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک دن اس یہودی کا چچا زاد بھائی، جس کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، مدینہ سے اس کے پاس آیا اور مجھے خرید کر اپنے پاس مدینہ میں لے گیا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی بیان کردہ علامات کی روشنی میں اس کو پہچان گیا (کہ یہی خاتم النبین کا مسکن ہو گا)۔ میں وہاں فروکش ہو گیا۔ اُدھر اللہ تعالی نے اپنے رسول کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کر دیا، جتنے دن انھوں نے وہاں ٹھہرنا تھا، وہ ٹھہرے۔ لیکن میں نے ان (کی آمد) کا کوئی تذکرہ نہیں سنا، دوسری باتیہ بھی ہے کہ میں غلامی والے شغل میں مصروف رہتا تھا۔ بالآخر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ اللہ کی قسم! (ایک دن) میں اپنے آقا کے پھل دار کھجور کے درخت کی چوٹی پر کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک بیٹھا ہوا تھا، اس کا چچازاد بھائی اچانک اس کے پاس آیا اور کہا: او فلاں! اللہ تعالی بنوقیلہ کو ہلاک کرے، وہ قبا میں مکہ سے آنے والے ایک آدمی کے پاس جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہے۔ جب میں نے اس کییہ بات سنی تو مجھ پر اس قدر کپکپی طاری ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اپنے مالک پر گر جاؤں گا۔ میں کھجور کے درخت سے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس بات سے میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے زور سے مکا مارا اور کہا: تیرا اس کی بات سے کیا تعلق ہے۔ جا، اپنا کام کر۔ میں نے کہا: کوئی تعلق نہیں، بس ذرا بات کی چھان بین کرنا چاہتا تھا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرے پاس میرا جمع کیا ہوا کچھ مال تھا۔ جب شام ہوئی تو میں نے وہ مال لیا اور قبا میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر داخل ہوا اور کہا: مجھے یہ بات موصول ہوئی ہے کہ آپ کوئی صالح آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب غریب اور حاجتمند لوگ ہیں۔ یہ میرے پاس کچھ صدقے کا مال ہے، میں نے آپ لوگوں کو ہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا ہے۔ پھر میں نے وہ مال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کیا۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: تم لوگ کھا لو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود اپنا ہاتھ روک لیا اور نہ کھایا۔ میں نے دل میں کہا کہ (اس بندۂ خدا کے نبی ہونے کی) ایک نشانی تو (پوری ہو گئی ہے)۔ پھر میں چلا گیا اور مزید کچھ مال جمع کیا۔ اب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ میں منتقل ہو چکے تھے۔ پھر (وہ مال لے کر) میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ صدقے کا مال نہیں کھاتے، اس لیےیہ ہدیہ (یعنی تحفہ) ہے، میں اس کے ذریعے آپ کی عزت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ چیز خود بھی کھائی اور اپنے صحابہ کو بھی کھانے کاحکم دیا، سو انھوں نے بھی کھائی۔ (یہ منظر دیکھ کر) میں نے دل میں کہا: دو علامتیں (پوری ہو گئیں ہیں)۔ (سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: )میں (تیسری دفعہ) جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو وہ بَقِیْعُ الْغَرْقَد میں تھے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی صحابی کے جنازے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو چادریں تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام کہا، پھر آپ کی پیٹھ پر نظر ڈالنے کے لیے گھوما، تاکہ (دیکھ سکوں کہ) آیا وہ (ختمِ نبوّت والی) مہرِ بھی ہے، جس کی پیشین گوئی میرے ساتھی نے کی تھی۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے گھومتے ہوئے دیکھا تو آپ پہچان گئے کہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کسی وصف کی جستجو میں ہوں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹا دی، میں نے مہرِ نبوت دیکھی اور اسے پہچان گیا۔ پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ٹوٹ پڑا اور آپ کے بوسے لینے اور رونے لگا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: پیچھے ہٹو۔ پس میں پیچھے ہٹ گیا۔ ابن عباس! پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنا وہ سارا ماجرا سنایا، جو تجھے سنایاہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات اچھی لگی کہ یہ واقعہ آپ کے صحابہ بھی سنیں۔ پھر سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غلامی کی وجہ سے مشغول رہے اور غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ (سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:) ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: سلمان! (اپنے مالک سے) مکاتبت کر لو۔ پس میں نے اپنے آقا سے اس بات پر مکاتبت کر لی کہ میں اس کے لیے تین سو کھجور کے چھوٹے درخت زمین سے اکھاڑ کر اس کی جگہ پر لگاؤں گا اور (مزید اسے) چالیس اوقیے دوں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی (سلمان) کی مدد کرو۔ لوگوں نے مدد کرتے ہوئے مجھے کھجوروں کے درخت دیے۔ کسی نے تیس، کسی نے بیس، کسی نے پندرہ، کسی نے دس، الغرض کہ ہر ایک نے اپنی استطاعت کے بقدر مجھے کھجوروں کے چھوٹے درخت دیے، حتی کہ میرے پاس تین سو کھجوریں جمع ہو گئیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: سلمان! جاؤ اور گڑھے کھودو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آ جانا، (یہ پودے) میں خود لگاؤں گا۔ (سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:) میں نے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری معاونت کی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ نکلے۔ ہم (کھجوروں کے وہ) بوٹے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب کرتے تھے اور آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لگا دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! ان میں سے کھجور کا ایک پودا بھی نہ مرا۔ اب میں کھجور کے چھوٹے درخت تو لگا چکا تھااور (چالیس اوقیوں والا) مال باقی تھا۔ کسی غزوے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مرغیکے انڈے کے بقدر سونا لایا گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: مکاتبت کرنے والا (سلمان) فارسی کیا کر رہا ہے؟ مجھے بلایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلمان! یہ لو اور اس کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جتنا (قرضہ) ہے، اس سے کیا اثر ہو گا؟ (یعنی قرضہ بہت زیادہ ہے)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو لو، عنقریب اللہ تعالی تمہارا (قرضہ) بھی ادا کر دے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! میں نے وہ لے لیا اور اس میں سے ان آقاؤں کو چالیس اوقیے تول کر دے دئیے ، ان کا پورا حق ادا کر دیا اور آزا د ہو گیا۔ پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوۂ خندق میں حاضر ہوا اور اس کے بعد کوئی غزوہ مجھ سے نہ رہ سکا۔ (مسند احمد: ۵/ ۴۴۱، صحیحہ: ۸۹۴)