Blog
Books
Search Hadith

اعمال میں میانہ روی اور اعتدال کا بیان

۔ (۸۹۱۸)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ ھٰذَا الدِّیْنَ مَتِیْنٌ، فَاَوْغِلُوْا فِیْہِ بِرِفْقٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۰۸۳)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشکیہ دین مضبوط ہے، تم اس میں نرمی کے ساتھ داخل ہو جائو۔
Haidth Number: 8918
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۹۱۸) تخریج:حسن بشواہدہ (انظر: ۱۳۰۵۲)

Wazahat

فوائد:… اگر ایک آدمی میں کسی تقریریا ذاتی مطالعہ کی وجہ سے تلاوت کی رغبت پیدا ہوتی ہے تو اس کو چاہیے کہ ایک ایک پاؤ یا نصف نصف پارے کی تلاوت سے اپنے عمل کا آغاز کرے، پھر مقدار کو آہستہ آہستہ بڑھاتا جائے، اگر کسی آدمی میں ہمسائیوں کے حقوق کے پورا کرنے کی رغبت پیدا ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ ایک گھر والوں کے حقوق ادا کر کے اپنی رغبت کو برقرار رکھے، پھر آہستہ آہستہ اپنی صلاحیت اور وقت کے مطابق اس سلسلے کو آگے بڑھائے۔ ہر عبادت کے بارے میں یہی قانون ہے، ما سوائے فرض عبادات کے۔ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ جب لوگوں میں کسی نہ کسی طرح رغبت پیدا ہو جاتی ہے تو اتنی بڑی مقدار میں عمل شروع کرتے ہیں کہ چوتھے پانچویں موقعہ پر بوریت اور اکتاہٹ میںمبتلا ہو کر مکمل عمل کو ترک کر دیتے ہیں۔ قارئین کرام! آپ غور کریں گے کہ ماہِ رمضان کے شروع ہوتے ہی لوگوں میں اعمال صالحہ کی بڑی رغبت پیدا ہوتی ہے، خاص طور پر پانچ نمازوں اور نمازِ تراویح کی، لیکن رمضان کی پانچ چھ تاریخ تک اکثر لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں میں وہ رغبت ختم ہو چکی ہوتی ہے، اس کی کیاوجہ ہے؟ یہی کہ نرمی کے ساتھ رسوخ حاصل نہیں کیا جاتا، لوگ اچانک اعمالِ صالحہ کی بڑی مقدار پر حملہ تو کر دیتے ہیں، لیکن ان کی طبیعت اور فطرت اس قدر اہل نہیں ہوتی کہ وہ ان کا ساتھ دے، سو چار پانچ دنوں کے بعد وہی گندی فطرت غالب آجاتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے لوگوں پر مایوسی چھا گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شامل حال نہیں ہے۔