Blog
Books
Search Hadith

نیکی کے افضل اعمال میں سے اجتماعی خصائل کی رغبت دلانے اور ان کے متناقض امور سے ممانعت کا بیان

۔ (۸۹۸۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ تَمِیْمَۃَ، عَنْ رَجُلٍ مِّنْ قَوْمِہِ اَنَّہُ اَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْ قَالَ:شَہِدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ: اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَوْ قَالَ: اَنْتَ مُحَمَّدٌ ؟ فَقَالَ:(( نَعَمْ۔)) قَالَ: فَاِلامَ تَدْعُوْا؟ قَالَ: ((اَدْعُوْ اِلَی اللّٰہِ وَحْدَہُ، مَنْ اِذَا کَانَ بِکَ ضُرٌ فَدَعَوْتَہُ کَشَفَہُ عَنْکَ، وَمَنْ اِذَا اَصَابَکَ عَامُ سَنَۃٍ فَدَعَوْتَہُ اَنْبَتَ لَکَ، وَمَنْ اِذَا کُنْتَ فِیْ اَرْضٍ قَفْرٍ فَاَضْلَلْتَ فَدَعَوْتَہُ رَدَّ عَلَیْکَ۔)) قَالَ: فَاَسْلَمَ الرَّجُلُ، ثُمَّ قَالَ: اَوْصِنِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ لَہُ: ((لا تَسُبَّنَّ شَیْئًا اَوْ قَالَ: اَحَدًا ۔)) شَکَّ الْحَکَمُ (اَحَدُ الرُّوَاۃِ) قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ شَیْئًا بَعِیْرًا وَلا شَاۃً مُنْذُ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ،((وَلا تَزْھَدْ فِی الْمَعْرُوْفِ وَلَوْ بِبَسْطِ وَجْھِکَ اِلٰی اَخِیْکَ وَاَنْتَ تُکَلِّمُہُ، وَاَفْرِغْ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَائِ الْمُسْتَسْقِیْ، وَاتَّزِرْ اِلٰی نِصْفِ السَّاقِ، فَاِنْ اَبَیْتَ فَاِلَی الْکَعْبَیْنِ، وَاِیَّاکَ وَاِسْبَالَ الْاِزَارِ قَالَ: فَاِنِّھَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ، وَاللّٰہُ لا یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۶۷۳۳)

۔ ابو تمیمہ اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا،یا اس نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، جبکہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیںیا آپ محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے کہا: آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس یکتا و یگانہ رب کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ اگر تجھ پر کوئی تکلیف آ پڑے گی اور تو اس کو پکارے گا تو وہ تیری تکلیف کو دور کر دے گا، جب تو قحط سالی میں مبتلا ہو جائے گا اور اس کو پکارے گا تو وہ تیرے لیے انگوریاں اگانے کے لیے (بارش نازل کرے گا)اور جب تو بے آب و گیاہ زمین میں اپنی سواری کھو بیٹھے گا اور اس کو پکارے گا تو وہ تیری سواری کو واپس تیرے پاس لے آئے گا۔ پس وہ آدمی مسلمان ہو گیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے نصیحت فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی کو گالی نہ دینا، (یعنی برا بھلا نہ کہنا)۔ اس آدمی نے کہا: جب سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ نصیحت کی اس وقت سے میں نے کسی چیز، وہ اونٹ ہو یا بکری، کو گالی نہیں دی۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی نیکی سے بے رغبتی اختیار نہ کر، اگرچہ وہ اپنے بھائی سے بات کرتے وقت اس کے سامنے خندہ پیشانی کا اظہار کرنے کی صورت میں ہو، پانی مانگنے کے ڈول میں پانی ڈال اور نصف پنڈلی تک اپنے ازار کو اٹھا کے رکھ، پس اگر تو اس قدر عمل نہ کر سکے تو ٹخنوں تک رکھ لے، خبردار چادر کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچنا ہے، کیونکہیہ تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔
Haidth Number: 8981
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۸۹۸۱) تخریج:حدیث صحیح، أخرجہ ابوداود: ۳۵۶۲ (انظر: ۱۶۶۱۶)

Wazahat

فوائد:… ابوداود کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: ((وَإِنْ امْرُؤٌ شَتَمَکَ وَعَیَّرَکَ بِمَا یَعْلَمُ فِیکَ فَـلَا تُعَیِّرْہُ بِمَا تَعْلَمُ فِیہِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ۔))… اور اگر کوئی آدمی تجھے برا بھلا کہے اور تیرے کسی عیب کی وجہ سے تجھے عار دلائے تو تو نے اس کو اس عیب کی وجہ سے عار نہیں دلانی جو تو جانتا ہے، کیونکہ اس چیز کا وبال اس پر ہو گا۔ اس حدیث کے آخری جملے سے معلوم ہوا کہ چادر اور شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ہی تکبر کی علامت ہے، خواہ دل میں تکبر پیدا ہو یا نہ ہو، اس لیے ہر وقت ہر مرد کو کم از کم اپنے ٹخنوں کو ننگا رکھنا چاہیے، اگر نصف پنڈلی تک رکھ لے تو افضل ہو گا۔ چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان لباس کے اس ادب کا خیال نہیں رکھتے اور وہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ یہ ادب اس کے لیے ہے، جو تکبر کرے۔ یہ دراصل ان لوگوں کی کج فہمی ہے، کیونکہ مرد کا ٹخنوں کو چھپانا تکبر ہی کی علامت ہے، جیسا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس حدیث ِ مبارکہ میں واضح کیا ہے، اس نظریہ کے حاملین سے دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام اپنے ٹخنوں کو ننگا کیوں رکھتے تھے؟ کیا ان میں تکبر پیدا ہو جانے کا شبہ پایا جاتا تھا؟ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔