Blog
Books
Search Hadith

والدین کے ساتھ نیکی کرنے، ان کے حقوق اور ان امور کی ترغیب دلانے کا بیان

۔ (۹۰۰۸)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَتْ تَحْتِیْ اِمْرَاَۃٌ اُحِبُّھَا، وَکَانَ عُمَرُ یَکْرَھُہَا، فَاَمَرَنِیْ اَنْ اُطَلِّقَھَا، فَاَبَیْتُ، فَاَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ اِمْرَاۃً کَرِھْتُھَا لَہُ فَاَمَرْتُہُ اَنْ یُّطَلِّقَھَا فَاَبٰی فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ! طَلِّقْ اِمْرَاَتَکَ۔)) فَطَلَّقَھَا۔ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَنْہُ اَیْضًا) فَقَالَ: ((اَطِعْ اَبَاکَ۔)) (مسند احمد: ۵۰۱۱)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری ایک بیوی تھی، میں اس کو پسند کرتا تھا، جبکہ میرے باپ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے، اس لیے انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہ مانی، پس وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرے بیٹے عبد اللہ کی ایک بیوی ہے، میں اس کو ناپسند کرتا ہوں، اس لیے میں نے اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اس کو طلاق دے دے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ! اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ پس انھوں نے اس کو طلاق دے دی، ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے باپ کی بات مان لے۔
Haidth Number: 9008
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۰۰۸) تخریج:اسنادہ قوی، أخرجہ ابوداود: ۵۱۳۸، وابن ماجہ: ۲۰۸۸، والترمذی: ۱۱۸۹(انظر: ۵۰۱۱)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی اطاعت، نفس کی خواہش پر مقدم ہے، جب ان کا حکم دین کے زیادہ موافق نظر آ رہا ہو، کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ناپسندی کی وجہ عورت کی قلت ِ دین ہو گی۔ اس حدیث میں والدین کی اطاعت کی ایک مثال بیان کی گئی ہے، امام مبارکپوری نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا: یہ واضح دلیل تقاضا کرتی ہے کہ جب باپ اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دے تو وہ ان کے حکم پر اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اگرچہ اس کو اپنی بیوی سے محبت ہو، کیونکہیہ محبت والدین کے حکم کے سامنے عذر نہیں بن سکتی، اس حدیث میںصرف باپ کا ذکر ہے، لیکن ماں کے حکم کی بھییہی حیثیت ہے، کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسری حدیث میں یہ وضاحت فرما دی ہے کہ بیٹے پر اس کے باپ کی بہ نسبت اس کی ماں کا حق زیادہ ہے۔(تحفۃ الاحوذی) ہاں اگر والدین کے حکم کی بنیاد دینی و اخلاقی بنیادوں پر نہ ہو تو ادب و احترام سے ان کو سمجھایا جائے تاکہ وہ بھی راضی ہو جائیں اور خواہ مخواہ عورت پر بھی ظلم نہ ہو، وگرنہ والدین کے حکم کو بیوی پر ترجیح دے کر اس کو رخصت کر دیا جائے۔ لیکن افسوس کہ آجکل لوگوں نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک یا بد سلوکی سے پیش آنے کے لیے اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کو معیار قرار دیا ہے، اپنے بیوی کے ہر قسم کے ناز نخرے پورے کئے جاتے ہیں، لیکن والدین پر ہونے والے اخراجات کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اگرچہ ان کی مقدار بھی کم ہوتی ہے ۔