Blog
Books
Search Hadith

ضیافت اور اس کے آداب کے ابواب مہمان کا اکرام کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت و برکت کا بیان

۔ (۹۰۸۷)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((لا خَیْرَ فِیْمَنْ لا یُضِیْفُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۵۵)

۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آدمی میں کوئی خیر نہیں ہے، جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔
Haidth Number: 9087
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۰۸۷) تخریج: حدیث حسن (انظر: ۱۷۴۱۹)

Wazahat

فوائد:… اسلام انسانیت کی تکریم اور غمگساری کا خواہاں ہے، اسی خواہش کا تقاضا ہے کہ مہمان کی عزت کی جائے، اس کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا جائے، حسب ِ استطاعت اور خوش دلی سے اس کی مہمانی کی جائے اور اس کے آرام و راحت کا خیال رکھا جائے۔ اسلام نے نہ صرف مہمانی پر زور دیا، بلکہ اس کے تمام آداب مقرر کر دیے اور جہاں مہمان نوازی کو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے کا تقاضا قرار دیا، وہاں مہمان کو بھی تنبیہ کر دی کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنا نہ ٹھہرے کہ وہ اس سے تنگ آ جائے۔ بہر حال مہمان نوازی سے جی چرانا خیرو بھلائی سے محرومی کاباعث ہے، مہمان خیرو برکت کا باعث بنتا ہے، جب سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کی بیوی نے خود کو اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مہمان کی میزبانی کا حق ادا کیا تو ان کے اندازِ میزبانی پر اللہ تعالیٰ مسکرائے اور یہ آیات نازل فرما دیں: {وَیُؤثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} (سورۂ حشر: ۹)… اور وہ (دوسرے حاجتمندوں کو) اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُن کو سخت بھوک ہو اور جو لوگ نفسوں کی بخیلی سے بچ گئے، وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ (الصحیحۃ:۳۲۷۲) اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے عمل پر تعجب کرے اور مسکرائے اور رہتی دنیا تک اپنے کلام میں اس کا تذکرہ کر دے۔ لہٰذاہمیں خوشنودیٔ الہی کے حصول کے لیے، فقر و فاقہ سے نہ ڈرتے ہوئے فراخ دلی سے مہمان کی خدمت کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ خیر و برکت کے دروازے کھول دے گا۔ غور فرمائیں کہ میزبانی کے وصف سے محروم شخص کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بے برکتا اور خیر سے محروم قرار دیا ہے۔ قارئین کرام! یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ہم لوگ معرفت اورعدم معرفت کو سامنے رکھ کر مہمانوں کی میزبانی میں بہت زیادہ فرق کرتے ہیں۔ مثلا ایک مہمان کی پرتکلف خدمت کی، ایک کو صلح شلح پہ ٹال دیا، ایک کو اتنا کمتر سمجھا کہ اسے چائے وائے کا ست کرنا بھی گوارہ نہ کیا اورکسی کے لیے تو گھر سے نکلنا ہی مناسب نہ سمجھا اور بچے یا خادم کے ذریعے اسے کوئی پیغام بھیج دینا ہی کافی سمجھ لیا۔ احباب! یہ فرق کیوں ہے؟ کیا اس لیے نہیں کہ پہلے سے جناب کی دوستی تھی، دوسرے سے کچھ دعا وسلام تھا اور تیسرا اجنبی تھا۔ کیا ایسی میزبانی میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا نام دکھائی دیتا ہے؟ کیا اسلام کے رشتے کو مد نظر رکھا گیا ہے؟کیا مہمان کییہ خدمتیں بطورِ مہمان ہیںیا ذاتی تعلق کی بنا پر؟ میزبانی کے ایسے انداز سے ہمیں باز آ جانا چاہئے، یہ مسکراہٹوں کے تبادلے اور دنیاداری ہے۔