Blog
Books
Search Hadith

ہدایت اور اعمالِ خیر کی طرف دعوت دینے اور ان پر رہنمائی کرنے اور سفارش کرنے اور آپس کی اصلاح کرنے کی ترغیب کا بیان

۔ (۹۱۳۳)۔ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِیْرٍ عَنْ اَبِیْہِ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قال: ((مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً، کَانَ لَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ، مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْتَقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ، وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً، کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْتَقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ۔)) (مسند احمد: ۱۹۳۶۹)

۔ سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی، جبکہ ان عاملوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی، اسی طرح جس نے اسلام میں برا طریقہ وضع کیا، اس کو اس کا گناہ بھی ملے گا اور اس کے بعد اس کو اپنانے والوں کا گناہ بھی ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔
Haidth Number: 9133
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۱۳۳) تخریج:أخرجہ مسلم: ۱۰۱۷(انظر: ۱۹۱۵۶)

Wazahat

فوائد:… اچھا طریقہ وہ ہے، جس کا شریعت میں اچھے ہونے کا تعین ہو چکا ہے، اس حدیث ِ مبارکہ میں اچھے طریقے کو جاری کرنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی نیکی کی ایسے انداز میں ابتدا کرے کہ دوسرے لوگوں کو بھی رغبت ہو اور وہ بھی وہی نیکی شروع کر دیں، چونکہ ابتدا کرنے والا لوگوں کے اس نیک عمل کا سبب بنا، اس لیے وہ اس عمل کی بنا پر تمام لوگوں کے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا، مذکورہ بالا حدیث درج ذیل موقع پر بیان کی گئی، اس واقعہ سے اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنا آسان ہو جاتاہے: سیدنا جریر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی صَدْرِ النَّہَارِ قَالَ فَجَاء َہُ قَوْمٌ حُفَاۃٌ عُرَاۃٌ مُجْتَابِی النِّمَارِ أَوْ الْعَبَاء ِ مُتَقَلِّدِی السُّیُوفِ عَامَّتُہُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ کُلُّہُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَی بِہِمْ مِنْ الْفَاقَۃِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلّٰی ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: {یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا۔} وَالْآیَۃَ الَّتِی فِی الْحَشْرِ{اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ} تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِینَارِہِ مِنْ دِرْہَمِہِ مِنْ ثَوْبِہِ مِنْ صَاعِ بُرِّہِ مِنْ صَاعِ تَمْرِہِ حَتّٰی قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ قَالَ فَجَاء َ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجِزُ عَنْہَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتّٰی رَأَیْتُ کَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِیَابٍ حَتّٰی رَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَہَلَّلُ کَأَنَّہُ مُذْہَبَۃٌ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْء ٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْئٌ۔)) …ہم دن کے شروع میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں ننگے بدن چمڑے کی عبائیں پہنے تلوراوں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی ان میں سے اکثر بلکہ سارے کے سارے قبیلہ مضر سے تھے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے پھر تشریف لائے تو سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا: {یٰا اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَا ئً وَّاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَا ئَ لُوْنَ بِہ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا} … اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ سے تم پر پورا نگہبان ہے۔ (سورۂ نسآئ: ۱) اور وہ آیت جو سو رۂ حشر میں ہے: {یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ} … اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ اس سے پور ی طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔ (سورۂ حشر: ۱۸)، پس آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو پھر انصار میں سے ایک آدمی تھیلی اتنی بھاری لے کر آیا کہ اس کا ہاتھ اٹھا نے سے عاجز ہو رہا تھا، پھر لوگوں نے اس کی پیروی کییہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر کپڑوں اور کھانے کے دیکھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آ نے لگا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی، جبکہ ان عاملوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی، اسی طرح جس نے اسلام میں برا طریقہ وضع کیا، اس کو اس کا گناہ بھی ملے گا اور اس کے بعد اس کو اپنانے والوں کا گناہ بھی ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ (صحیح مسلم: ۱۶۹۱) جس آدمی نے زیادہ مقدار میں صدقہ کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے عمل کو سراہا ہے، کیونکہ اس کے عمل کی وجہ سے دوسرے لوگوں میں رغبت پیدا ہوئی۔ یہی معاملہ برے عمل کا ہے، جو آدمی دوسرے لوگوں کی برائیوں کا سبب بنے گا، تو اس کو ان کی برائیوں کا گناہ ملے گا، جب کہ کسی کی وجہ سے کسی کے گناہ میں کمی واقع نہیں ہو گی۔