Blog
Books
Search Hadith

اللہ کی مخلوق پر رحم کرنے کی ترغیب اور ایسا کرنے والے کے ثواب اور مخلوق پر رحم نہ کرنے والے کی وعید کا بیان

۔ (۹۲۱۳)۔ عَنْ عَمْرٍو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُعَرِّفْ حَقَّ کَبِیْرِنَا۔)) (مسند احمد: ۶۷۳۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو ہمارے کم سن پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑے کے حق کو نہیں پہچانتا۔
Haidth Number: 9213
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۲۱۳) تخریج: حدیث صحیح، أخرجہ ابوداود: ۴۹۴۳، والترمذی: ۱۹۲۰(انظر: ۶۷۳۳)

Wazahat

فوائد:… اسلام اس لحاظ سے یکتا و یگانہ حیثیت کا مالک ہے کہ اس نے بزرگو ں کے احترام و اکرام اور چھوٹوں سے محبت و شفقت کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ کوئی مذہب بسیار کوشش کے باوجود اپنے پیروکاروں کے دلوں میں بڑوں کے احترام اور چھوٹوں سے شفقت کے جذبات پیدا نہ کر سکا۔ مغربی تہذیب تو اخلاقِ حسنہ سے اس قدر عاری ہے کہ وہاں بڑی عمر کے لوگوں کو (Ol ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما Hous s) میں جمع کر کے ان کو زندگی کے حقیقی لطف اور اپنے بچوں پہ نگاہِ شفقت ڈالنے سے محروم کر دیا جاتا ہے، جبکہ اسلام اس فرد کو اپنے تمدن کا باشندہ ہی نہیں سمجھتا جو بزرگوں کی بزرگی اور بچوں سے حسن ِ سلوک کا لحاظ نہیں کرتا۔ ((لَیْسَ مِنَّا))کے لفظی معانی وہ ہم میں سے نہیں کے ہیں،یہ جملہ کسی شخص سے نفرت، بیزاری اور براء ت کا اظہار کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، اس جملہ کے مفہوم سے چند احتمالات پیدا ہوتے ہیں کہ وہ ہم میں سے نہیں سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا معنییہ ہے کہ اس کا تعلق ہماری امت سے نہیںیا وہ صادق اور کامیاب مسلمانوں میں سے نہیںیا وہ ہمارے طریقے پر نہیںیا وہ ہمارے حکم اور فیصلے پر نہیںیا وہ ان لوگوں میں سے ہے جو ہماری سفارش کے مستحق نہیں؟ اس سلسلہ میں محدثین کرام اور سلف صالحین کی توجیہات و تشریحات کا مطالعہ فرمائیں۔ ۱۔حافظ ابن حجر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌، عبدالرحمن مبارکپوری ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌اوردیگر کئی اہل علم کہتے ہیں: لیس منا ای من اھل سنتنا و طریقتنا، ولیس المراد بہ اخراجہ عن الدین، ولکن فائدۃ ایرادہ بھذا اللفظ المبالغۃ فی الردع عن الوقوع فی مثلِ ذلک … وہ ہم میں سے نہیں سے مراد یہ ہے کہ وہ ہماری سنت اور طریقے پر نہیں،اس سے مراد اس آدمی کو دین ِ اسلام سے خارج کرنا نہیں، ان الفاظ کا فائدہ ایسی برائیوں سے ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہے۔ ۲۔ بعض اہل علم کہتے ہیں: فَلَیْسَ مِنَّا أیْ لَیْسَ عَلٰی دِیْنِنَا الکامِلِ۔ … ہم میں سے نہیں سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمارے مکمل دین پر نہیں، بلکہ اس کا دین ناقص ہے)۔ ۳۔ بعض علمائے دین کہتے ہیں: لیس منا ای لیس من أدبنا أولیس مِثْلَنَا۔ … وہ ہم میں سے نہیں سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمارے (معینہ) آداب پر نہیںیا وہ ہماری طرح کا (مکمل) مسلمان نہیں۔ جبکہ امام سفیان بن عینیہ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌مذکورہ بالا تمام مفاہیم و مطالب کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حدیث میں وارد ہونے والے ایسے الفاظ کی تاویل کرنے سے باز رہنا چاہئے تاکہ لوگوں کے قلوب و اذہان میں اس کا اثر بھی زیادہ ہو اور لوگوں کو ایسے جرائم سے باز رہنے کا فائدہ بھی ہو۔ بہرحالیہ الفاظ متعلقہ امر کی قباحت و شناعت پر دلالت کرتے ہیں،یہ الفاظ صاحب ِ شریعت ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے بہت سخت وعید ہیں، ایسے امور سے اجتناب کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہئے۔