Blog
Books
Search Hadith

سچائی اور امانت کی ترغیب کا بیان

۔ (۹۲۳۵)۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَبِی عَدِیٍّ، عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَھْلِ مَکَّۃَ،یُقَالُ لَہُ: یُوْسَفُ قَالَ: کَنْتُ اَنَا وَرَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ نَلِی مَالَ اَیْتَامٍ قَالَ: وَکَانَ رَجُلٌ قَدْ ذَھَبَ عَنِّی بِاَلْفِ دِرْھَمٍ قَالَ: فَوَقَعَتْ لَہُ فِییَدِی اَلْفُ دِرْھَمٍ قَالَ: فَقُلْتُ لِلْقُرَشِیِّ اِنِّہُ قَدْ ذَھَبَ لِیْ بِاَلْفِ دِرْھَمٍ وَقَدْ اَصَبْتُ لَہُ اَلْفَ دِرْھَمٍ، قَالَ: فَقَالَ الْقُرَشِیُّ حَدَّثَنِی اَبِی اَنِّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلیٰمَنِ ائْتَمَنَکَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۵۰۲)

۔ اہل مکہ میں سے یوسف نامی آدمی کہتا ہے: میں اور ایک قریشی آدمی کچھ یتیموں کے مال کی سرپرستی کرتے تھے، ہوا یوں کہ ایک آدمی (خیانت کرتے ہوئے) مجھ سے ایک ہزار درہم لے گیا، پھر اس کا ایک ہزار درہم میرے ہتھے لگ گیا، میں نے قریشی سے کہا: فلاں بندہ میرا ایک ہزار درہم لے گیا تھا، اب اس کا ایک ہزار درہم مجھے مل گیا تو کیا اب میں یہ رقم دبا لوں؟ اس نے کہا: میرے باپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تجھے امین بنائے تو تو اس کو اس کی امانت ادا کر دے اور اس کے ساتھ خیانت نہ کر، جس نے تجھ سے خیانت کی ہو۔
Haidth Number: 9235
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۲۳۵) تخریج: مرفوعہ حسن لغیرہ، وھذا اسناد ضعیف لابھام ابن الصحابی الذی روی عنہ یوسف، أخرجہ ابوداود: ۳۵۳۴(انظر: ۱۵۴۲۴)

Wazahat

فوائد:… شریعت تمام کی تمام امانت ہے، کسی کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق سے ہے اور کسی کا بندوں کے حقوق سے۔ شریعت ِ اسلامیہ میں امانت کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس کی ادائیگی نہ کرنے والے کو منافق کہا گیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امانت مسلمان کا مستقل وصف ہونا چاہیے، نہ کسی کی امانت کے بدلے میں اس صفت کو اپنایا جائے اور نہ کسی کی خیانت کے عوض اس کو ترک کیا جائے۔ اس معاملے میں اپنے پرائے، امین و خائن اور مسلم و کافر کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا، بلکہ ہر ایک کی امانت ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہمارے ہاں انتقام لینے کی فضا عام ہے، مثلا اگر وقت کی حکومت اپنے حقوق ادا نہ کر رہی ہو تو عوام اس کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں، مثلا بجلی اور گیس چوری کرنا، حکومت کی ملکیت کا کسی قسم کا مال چوری کرنا، ٹرین کے ذریعے سفر کرنے پر کرایہ نہ دینا، دفاتر، سکولز، کالجز اور مختلف حکومتی اداروں میں اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کرنا، سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا۔ شریعت میں یہ تمام گناہ کی بدترین اقسام ہیں۔ یہی معاملہ کسی انسان کی خیانت کے مقابلے میں اس سے خیانت کرنے کا ہے۔ قارئین کرام! غور فرمائیں کہ شریعت میں نیکی اور گناہ کا تعلق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور نافرمانی سے ہے، کسی کی دوستی اور دشمنی سے نہیں۔ درج ذیل حدیث پر غور فرمائیں: سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنْ ابْتَاعَھَا بَعْدُ فَھُوَ بِخَیْرِ النَّظَرِیْنَ بَعْدَ اَنْ یَّحْلُبَھَا، اِنْ شَائَ اَمْسَکَھَا، وَاِنْ شَائَ رَدَّھَا وَصَاعًا مِّنْ تَمْرٍ۔)) (بخاری: ۲۱۵۱، مسلم: ۱۵۲۴) … اونٹنیوں اور بکریوں (کو فروخت کرتے وقت) ان کا دودھ مت روکو، اگر کوئی آدمی ایسا جانور خرید لیتا ہے تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دو اختیار ہیں، اگر وہ چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے، لیکن اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع بھی واپس کرے۔ مسلم کی روایت میں ہے: ((فَھُوَ بِالْخِیَارِ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) … اسے (واپس کرنے کا) تین دنوں تک اختیار ہے۔ دیکھیں کہ جانور بیچنے والے نے دھوکہ کیا اور دو تین دن جانور کو چارہ ڈالتا رہا، لیکن اس کا دودھ نہیں دوہا۔ جب خریدنے والے نے دودھ دوہ کر استعمال کر لیا اور ایک دو دنوں تک اس پر حقیقت ِ حال واضح ہو گئی تو شریعت نے اسے سودا واپس کرنے کا تین دن تک اختیار دیا ہے اورساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر وہ جانور واپس کرتا ہے تو کھجوروں کا ایک صاع بھی ساتھ واپس کرے، تاکہ بیچنے والا جو چارہ ڈالتا رہا، لیکن دودھ نہیں دوہا، اس کا عوض ہو جائے۔ سبحان اللہ! جانور کا دودھ روکنے والے نے ظلم کیا اور دھوکہ کیا، لیکن شریعت نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ اس کے دھوکے کے عوض اس کو نقصان پہنچایا جائے یا اس کے ساتھ زیادتی کی جائے، بلکہ یہ حکم صادر فرمایا کہ اس کے دھوکے کو اس پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے چارے یا محنت کے عوض اس کو کھجوروں کا ایک صاع دے دیا جائے۔