Blog
Books
Search Hadith

تواضع کی ترغیب دلانے اور اس کی فضیلت کا بیان

۔ (۹۲۴۷)۔ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ، اَنْبَاَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ اَبِیْہِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَمَرَ، (قَالَ: لَا اَعْلَمُہُ اِلاَّ رَفَعَہُ) قَالَ: ((یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ مَنْ تَوَاضَعَ لِی ھٰکَذَا، (وَجَعَلَ یَزِیْدُ بَاطِنَ کَفَّیْہِ اِلَی الْاَرْضِ، وَاَدْنَاھَا اِلَی الْاَرْضِ،) رَفَعْتُہُ ھٰکَذَا، وَجَعَلَ بَاطِنَ کَفِّہِ اِلَی السَّمَائِ، وَرَفَعَھَا نَحْوَ السَّمَائِ۔ (مسند احمد: ۳۰۹)

۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس بندے نے میرے لیے اس طرح تواضع اختیار کی، پھر یزید راوی نے ہتھیلی کو زمین کی طرف کیا اور پھر زمین کے قریب کیا، تو میں اللہ اس کو ایسے بلند کروں گا، پھر راوی نے ہتھیلی کی پشت کو آسمان کی طرف کیا اور پھر آسمان کی طرف بلند کیا۔
Haidth Number: 9247
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۲۴۷) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین، أخرجہ البزار: ۱۷۵، وابویعلی: ۱۸۷ (انظر: ۳۰۹)

Wazahat

فوائد:… کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے ہیچ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بلندی عطا کرنا چاہی، وہی رفعت والا ہو گا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کرنا چاہا، وہی حقارت والا ہو گا، دونوں جہانوں کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابع ہے، جو اس کے قریب ہوا، جس نے اس کے لیے تواضع اختیار کی، رفعت و عظمت کا ستارہ اس کے ماتھے کا جھومر بن کر رہے گا۔ تواضع کا مطلب ہے، ایک دوسرے کے ساتھ عاجزی وانکساری، نرمی و رحمدلی اور محبت و الفت سے پیش آنا، حسب و نسب یا مال و دولت کی بنیاد پر کسی کو حقیر نہ سمجھنا اور نہ کسی پر ظلم و زیادتی کرنا۔وجہ یہ ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مقام و مرتبہ، مال و دولت حسب و نسب جیسی صلاحیتوں سے نوازا ہے، تو اس کو اس پراللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، کیونکہ ان انعامات کے حصول میں اس کی صلاحتیں کارفرما نہیں ہیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان اس کے لیے مضرّ ثابت ہو اس طرح کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بنظر حقارت دیکھےیا ان پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنے لگے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رفعت و منزلت اور عظمت و مرتبت کے انتہائی اعلی مراتب پر فائز تھے، کسی امتی کا آپ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم دیا: {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۂ شعرائ: ۲۱۵) … (اے محمد!) اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔ لیکنیہ حقیقت مدنظر رہے کہ آدمی نرمی و عاجزی اختیار کرنے سے بعض دفعہ یہ سمجھتا ہے کہ اس میں اس کی ذلت ہے، ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، کیونکہ تواضع کا نتیجہ عزت و سرفرازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور آخرت میں بھی اس کا حسن انجام واضح ہے کہ اسے بلند درجات سے نوازا جائے گا۔