Blog
Books
Search Hadith

تواضع کی ترغیب دلانے اور اس کی فضیلت کا بیان

۔ (۹۲۵۰)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ اَنَسِ نِ الْجُھَنِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنَّہُ قَالَ: ((مَنْ تَرَکَ اَنْ یَّلْبَسَ صَالِحَ الثِّیَابِ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ تَوَاضُعًا لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ، دَعَاہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ عَلیٰ رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ حَتّٰییُخَیِّرَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ فِی حُلَلِ الْاِیْمَانِ اَیَّتَھُنَّ شَائَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۷۰۴)

۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع کرتے ہوئے اچھا لباس نہیں پہنا، حالانکہ وہ اس کی قدرت رکھتا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس کوبھی ساری مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے یہ اختیار دے گا کہ وہ ایمان کی جو پوشاک پسند کرتا ہے، وہ پہن لے۔
Haidth Number: 9250
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۲۵۰) تخریج: حدیث حسن، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۲۰/ ۴۵۱ (انظر: ۱۵۶۱۹)

Wazahat

فوائد:… اس حدیث ِ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حقیقی اور گہرے تعلق کی ضرورت ہے، آپ ذیل میں پیش کی گئی بحث پر توجہ کریں، ممکن ہے اس حدیث کی فقہ سمجھ آ جائے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود کنگھی کی بھی ہے اور بالوں کو اچھی طرح سنوارنے کا حکم بھی دیا ہے، لیکنیہ بھی حکم دے دیا کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی نہ کرے، یہی معاملہ لباس کا ہے۔ مقصودِ شریعتیہ ہے کہ مسلمان نہ تو ایسا ہو کہ ہفتوں تک نہانے اوربالوں کو سنوارنے کا اہتمام نہ کرے اور بالآخر اپنی حیثیت کو نہ سمجھنے والا قابل نفرت شخص بن جائے اور نہ ایسا ہو کہ ہر روز اور ہروقت اپنی ظاہری ٹیپ ٹاپ پر توجہ مرکوز رکھے، کیونکہ ہر وقت کی خوشحالی، آسودگی اور خوش عیشی بھی انسان کے مزاج میں فساد پیدا کر دیتی ہے اور وہ غرور و تکبر میںمبتلا ہو جاتا ہے اور کم صفائی رکھنے والے یا سادہ زندگی گزارنے والوں سے نفرت کرنے لگتا ہے یا کم از کم یہ ہوتا ہے کہ سادگی کی اہمیت اور فوائد کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ ایک دن صحابہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے دنیا کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (( اَلَا تَسْمَعُوْنَ؟ اَلَا تَسْمَعُوْنَ؟ اِنَّ الْبَذَاذَۃَ مِنَ الْاِیْمَانِ۔)) … کیا تم نہیں سنتے؟ کیاتم نہیں سنتے؟ کہ سادگی ایمان کا حصہ ہے۔ (ابوداود: ۴۱۶۱) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عمدہ لباس کے ساتھ ساتھ سادہ لباس کو بھی ترجیح دینی چاہیے اور مرغوب، لذیذ اور انواع و اقسام کی خوراک کے مقابلے میں روکھی سوکھی اور سادہ خوراک بھی استعمال کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا کی آسائشوں اور سہولتوں میں الجھنے کی وجہ سے آخرت کا دھیان کم پڑ جاتا ہے اور تکلفات سے اجتناب کرنے کی صورت میں توجہ آخرت کی طرف رہتی ہے۔ لیکنیہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکیزگی ، صفائی اور طہارت کا اہتمام کرنا اور چیز ہے اور عمدہ اور قیمتی لباس کا اہتمام کرنا اور چیز ہے۔ سادگی، صفائی کی متضاد چیز نہیں ہے۔ اس کی دوسری مثال یوں سمجھیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی جوتا استعمال کیا ہے اور اس کو پہننے کی ترغیب بھی دلائی ہے، لیکن ننگے پاؤں چلنے کا حکم بھی دیا ہے۔ غور کریں کہ قیمتی اور خوبصورت جوتا پہننے سے انسان کے جذبات کا کیا حال ہوتا ہے، ننگے پاؤں چل کر ان جذبات کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ درج ذیل حدیث سے اس مسئلہ کی توضیح ہو جائے گی۔ سیدنا معاذ بن انس جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَرَکَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلّٰہِ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ، دَعَاہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ حَتّٰییُخَیِّرَ مِنْ أَیِّ حُلَلِ الإِیْمَانِ شَائَ یَلْبَسُھَا۔)) … جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تواضع کے طورپر عمدہ لباس پہننا چھوڑ دیا، درآن حالیکہ وہ اس کی طاقت رکھتا تھا، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے سامنے اسے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند کرے، پہن لے۔ (ترمذی، صحیحہ:۷۱۸) بات سمجھانے کے لیے حدیث دوبارہ پیش کی ہے۔ اس حدیث میں تواضع کی اور دوسروں پر برتری نہ جتلانے کی فضیلت ہے۔ ایمان کے جوڑے سے مراد، جنت کے وہ اعلی جوڑے ہیں، جو صرف اہل ایمان کو پہنائے جائیں گے۔ اگر درج ذیل احادیث پر غور کیا جائے تو سادگی سے متعلقہ گزارشات کو آسانی سے سمجھا جا سکے گا: سیدنا ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں: ((کَانَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْکَبُ الْحِمَارَ وَیَخْصِفُ النَّعْلَ وَیَرْقَعُ الْقَمِیْصَ وَیَقُوْلُ: ((مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنَّیْ۔)) (الصحیحۃ: ۲۱۳۰، و رواہ أبو الشیخ:۱۲۸، والسھمی فی تاریخ جرجان :۳۱۵)… آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گدھے پر سوار ہوتے تھے، جوتاسلائی کر تے تھے اور قمیص کو خود ہی پیوند لگا لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَا اسْتَکْبَرَ مَنْ أکَلَ مَعَہُ خَادِمُہُ وَرَکِبَ الْحِمَارَ بِالأسْوَاقِ، وَاعْتَقَلَ الشَّاۃَ فَحَلَبَھَا۔)) (الصحیحۃ: ۲۲۱۸، البخاری فی الأدب المفرد :۵۵۰، و الدیلمی: ۴/۳۳) … وہ شخص متکبر نہیں ہے،جس کے ساتھ اُس کے خادم نے کھانا کھایااور وہ بازاروں میں گدھے پر سوارہوا اوربکری کی ٹانگ کو اپنی ٹانگ میں پھنسا کر اس کو دوہا۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کوئی چیز اٹھانے میںیا کوئی کام کرنے میںیا اپنے سے کم مرتبہ آدمی کی خدمت کرنے میںیا ردّی سواری استعمال کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔ یہی وہ مزاج ہے، جس کو شریعت کچلنا چاہتی ہے، اسی مقصد کے لیے مندرجہ بالا احادیث بیان کی گئی ہیں۔