Blog
Books
Search Hadith

توکل کی ترغیب دلانے کا بیان

۔ (۹۲۵۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ اَصَابَتْہُ فَاقَۃٌ فَاَنْزَلَھَا بِالنَّاسِ، لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُہُ، وَمَنْ اَنْزَلَھَا بِاللّٰہِ، عَزَّوَجَلَّ، اَوْشَکَ اللّٰہُ لَہُ بِالْغِنَی، اِمَّا اَجَلٌ عَاجِلٌ، اَوْ غِنًی عَاجِلٌ۔)) (مسند احمد: ۳۸۶۹)

۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو فاقہ میں مبتلا ہو گیا اور پھر اس نے اس فاقے کو لوگوں پر پیش کر دیا تو اس کا فاقہ پورا نہیں ہو گا اور جس نے اس کو اللہ تعالیٰ پر پیش کیا تو وہ جلد ہی اس کو غنی کر دے گا، جلدی موت کی صورت میںیا جلدی غنی کی صورت میں۔
Haidth Number: 9255
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۲۵۵) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:… جو ذات پوری مخلوق کی حاجات و ضروریات پوری کرنے پر قادر بھی ہے اور اپنی عطا کا دروازہ بھی بند نہیںکرتا، وہی اس صفت کے لائق ہے کہ حاجات و ضروریات میں اسی کو یاد کیا جائے۔ بادشاہوںکے پاس آنے والے ایک آدمی نے وہب بن منبہ نے کہا: وَیْحَکَ أَتَأْتِیْ مَنْ یُغْلِقُ عَنْکَ بَابَہٗوَیُوَارِیْ عَنْکَ غِنَاہُ وَتَدَعُ مَنْ یَفْتَحُ لَکَ بَابَہٗنِصْفَاللَّیْلِ وَ نِصْفَ النَّھَارِ وَیَظْھَرُ لَکَ غِنَاہُ … تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو اس کے پاس آتا ہے، جو اپنا دروازہ تجھ سے بند کر لیتا ہے اور اپنے غِنٰی کو تجھ سے چھپاتا ہے اور تو اس کو چھوڑ دیتا ہے، جو نصف رات کو بھی تیرے لیے دروازہ کھولتا ہے اور نصف دن کو بھی اور تیرے لیے اپنے غِنٰی کا اظہار بھی کرتاہے؟ دراصل انسان اپنی مصلحتوں اور مضرتوں کو سمجھنے سے عاجز ہے، اس کا کام کوشش کرنا ہے، لہٰذا اس کو سمجھنا چاہیے کہ ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں سے سوال کرنا شروع کر دیا جائے، بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پورے یقین کے ساتھ پکارا جائے۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ نے شیخ محمود سبکی (المنھل العذب: ۹/ ۲۸۳) کے کلام کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا: اَجَلٌ عَاجِلٌ (جلد موت) کے دو مفہوم ہیں: (۱) محتاج کا کوئی قریبی فوت ہو جائے گا، جس کا یہ وارث بنے گا۔ (۲) محتاج خود فوت ہو جائے گا اور سرے سے مال سے مستغنی ہو جائے گا۔ غِنًی عَاجِلٍ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کسی نہ کسی طریقے سے خوشحال اور غنی کر دے گا۔ درج ذیل آیت میں اسی حدیث کا مصداق بیان کیا گیا ہے: {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗمَخْرَجًا۔وَیَرْزُقُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ} (سورۂ طلاق: ۲، ۳)… اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے (ابتلا و آزمائش سے) نکلنے کی راہ پیدا کر دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا، جہاں سے اسے کوئی وہم و گمان نہیں ہو گا۔ (صحیحہ: ۲۷۸۷) اس فرمان نبوی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں یہ ترغیب ہے کہ حاجت و ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور ہر ممکنہ صورت میںلوگوں کے سامنے دست ِ سوال پھیلانے سے بچا جائے، اسی میں زندگی کا لطف اور مزہ ہے۔ آج کل لوگوں نے اپنا معیارِ زندگی اپنی آمدن سے بلند کر دیا ہے، اب اس کو برقرار رکھنے کے لیے وہ کسی قسم کا حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہمیں چاہیے کہ اسبابِ زندگی کے مطابق اپنے قدم پھیلائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے رہیں۔ اگر صبر و قناعت ہو تو سالن کی بجائے چٹنی اور اچار اور پراٹھوں کی بجائے سوکھی روٹی کھا کر، دس بارہ کی بجائے تین چار سوٹوں پر گزارا کر کے اور مہمانوںکو مہنگے اور پیاس نہ بجھانے والے مشروبات کی بجائے عام مشروبات پلا کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے اور جیب کے مطابق زندگی کا سرکل بھی چلایا جا سکتا ہے۔