Blog
Books
Search Hadith

دنیا اور اس کی زینت و سجاوٹ اور نعمتوں سے بے رغبتی اختیار کرنے کی ترغیب کا بیان

۔ (۹۲۷۵)۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ بِہٖاِلَی الْیَمَنِ، قَالَ: ((اِیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ، فَاِنَّ عِبَادَ اللّٰہِ لَیْسُوْا بِالْمُتَنَعِّمِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۶۹)

۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: خوش عیشی سے بچو، پس بیشک اللہ تعالیٰ کے بندے خوش عیش نہیں ہوتے۔
Haidth Number: 9275
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۲۷۵) تخریج: صحیح، قالہ الالبانی (انظر: ۲۲۱۱۸)

Wazahat

فوائد:… بڑی قابل تعجب بات ہے کہ ایک طرف تو منشائے شریعتیہ ہے کہ انسان کے وجود پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے آثار نظر آنے چاہئیں، لیکن دوسری طرف خوش عیشی کی مذمت کی جا رہی ہے، در اصل خوش عیشی فی نفسہ کوئی مذموم چیز نہیں ہے، لیکن جب اس کے اثرات اور نتائج پر نگاہ ڈالی جائے، تو کئی طرح سے اس میں فساد نظر آتا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال فکر ِ آخرت کی کمی ہے۔ ہم اس ضمن میں کچھ اقتباسات نقل کرنا چاہتے ہیں: دنیوی آسائشیں، اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ہیں، وہ مال و دولت کی صورت میں ہوں یا عہدہ و منصب کی صورت میں۔ بہرحال دنیا نے اکثر لوگوں کو اپنے اثرات کا پابند کر دیا اور ان کو اسلامی مزاجوں کا نہیں رہنے دیا۔ وہ آسائشوں اور سہولتوں کے اس قدر غلام بن جاتے ہیں کہ فقر و فاقہ میں مبتلا لوگوں کے مصائب کو پہچاننا ان کے لیے دشوار ہوجاتا ہے۔ ان کے رویے میں ناز نخرے آجاتے ہیں، ان کی مسکراہٹوں اور حسن سلوک کے لیے شخصتیں خاص ہو جاتی ہیں۔ بہرحال کوئی دولتمند ان حقائق سے اتفاق نہیں کرے گا، کیونکہ وہ اپنے دماغ کے فیصلے کے مطابق انسانِ کامل ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ فیکٹریوں اور صنعتوں کے مالکان، اعلی پیمانے کے تجار، مساجد و مدارس کی انتظامیہ، جن کے گھروں کے ماہوار اخراجات لاکھوں روپوںپر مشتمل ہوتے ہیں، لیکنیہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے ماتحتوں کو تین چار ہزار فی مہینہ پر ہی گزارا کرنا چاہیے اور اس پر مستزاد یہ کہ اتنی معمولی تنخواہ دے کر اپنا رعب جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے آقا اپنے غلام سے سلوک روا رکھتا ہے۔ رہا مسئلہ قلت ِ مال یا کثرتِ مال کے بہتر ہونے کا، تو یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ دین کی حفاظت کے لیے، ارکانِ اسلام کی ادائیگی کے لیے اور کئی مفاسد سے بچنے کے لیے قلت ِ مال بہترین ذریعہ ہے، یقین مانیے کہ اگر گزر بسر کے بقدر رزق نصیب ہو جائے تو دنیا کا حقیقی سکون مل جاتا ہے۔ یہ غربت ہی ہے جو بچوں کو دینی تعلیم دینے، قرآن مجید حفظ کرنے اور قرآن و حدیث کی تعلیم کے حصول پر آمادہ کرتی ہے اور یہی لوگ ہیں کہ دین کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے جن کی اکثریت کو استعمال کیا گیا۔مزاج میں سادگی اور ہر آدمی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ان ہی لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے کہ مسکین لوگ امیر لوگوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ بہرحال یہ ایسے حقائق ہیں جو امیر زادوں اور مال و دولت کے طلبگاروں کے لیے ناقابل تسلیم ہیں۔ قارئین کرام! ذہن نشین رہے کہ جب قلت ِ مال کی مدح اور کثرت ِ مال کی مذمت کی جاتی ہے تو اس وقت کسی خاص امیریا غریب فرد کو سامنے نہیں رکھا جاتا، بلکہ مطلق ماحول پہ نگاہ ڈال کر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ مال و دولت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، لیکن بوڑھا آسمان اور پرانی زمین شاہد ہیں کہ اکثر لوگ اس نعمت کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہے اور من پسند اور عیش پرست زندگی میں پڑ کر کئی مفاسد میں مبتلا ہو گئے۔ مصیبتیہ ہے کہ ان بیچاروں کو ان حقائق کا اندازہ ہی نہ ہو سکا، جن کی وضاحت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمائی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار کرنے کے لیے اچھا لباس پہننا اور اچھے ماکول و مشروب کا انتظام کرنا پسندیدہ ہے، لیکن اس پر دوام اختیار کرنا اور تکلف کرنا کسی طرح خطرے سے خالی نہیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بسا اوقات جان بوجھ کر سادہ لباس پہننے، کنگھی نہ کرنے اور ننگے پاؤں چلنے کا حکم دیا ہے۔ اگر شریعت کی روشنی میں مال و دولت کے تقاضوں کو سمجھ کر ان کو ادا کیا جائے تو اس کو اللہ کی نعمت ِ عظمی سمجھا جائے گا، آخر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تو مالدار تھے، ان کو اسی وجہ سے غنی کا لقب ملا اور انھوں نے اسی کے بل بوتے پر تائید ِ دین کی ایسی مثالیں قائم کر دیں، جو رہتی دنیا تک مال داروں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت سے زندہ رہیں گی۔ اگر خوش عیشی، اللہ تعالیٰ کی کوئی پسندیدہ چیز ہوتی تو یقینا اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے بھی پسند کیا جاتا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صورتحال تو یہ تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تکیہ چمڑے کا تھا اور اس کی بھرتی کھجور کے درخت کی چھال کی تھی۔