Blog
Books
Search Hadith

فقراء مساکین کی فضیلت اور ان سے محبت کرنے اور ان کے ساتھ بیٹھنے کی ترغیب دلانے کا بیان

۔ (۹۳۲۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِلْتَقیٰ مُؤْمِنَانِ عَلیٰ باَبِ الْجَنَّۃِ، مُؤُمِنٌ غَنِیٌّ، وَمُؤُمِنٌ فَقِیْرٌ،کَانَا فِی الدُّنْیَا، فَاُدْخِلَ الْفَقِیْرُ الْجَنَّۃَ، وَحُبِسَ الْغَنِیُّ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یُّحْبَسَ، ثُمَّ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ، فَلَقِیْہِ الْفَقِیْرُ، فَیَقُوْلُ: اَیْ اَخِیْ مَاذَا حَبَسَکَ؟ وَاللّٰہِ لَقَدِ احْتُبِسْتَ حَتّٰی خِفْتُ عَلَیْکَ ، فَیَقُوْلُ: اَیْ اَخِیْ، اِنِّیْ حُبِسْتُ بَعْدَکَ مَحْبسًا فَظِیْعًا کَرِیْھًا، وَمَا وَصَلْتُ اِلَیْکَ، حَتّٰی سَالَ مِنِّی الْْعَرَقُ، مَا لَوْ وَرَدَہُ اَلْفُ بَعِیْرٍ،کُلُّھَا آکِلَۃُ حَمْضٍ، لَصَدَرَتْ عَنْہُ رِوَائً۔)) (مسند احمد: ۲۷۷۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو مؤمن جنت کے دروازے پر ملیں گے، ایک مالدار ہو گا اور دوسرا فقیر، وہ دنیا میں دوست ہوں گے، پس فقیر کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور مالدار کو اتنی دیر کے لیے روک لیا جائے گا، جتنا اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر جب اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور وہ فقیر اس کو ملے گا تو وہ کہے گا: اے میرے بھائی! کس چیز نے تجھے روک لیا تھا؟ اللہ کی قسم! تجھے اتنی دیر کے لیے روکا گیا کہ مجھے تو تیرے بارے میں ڈر محسوس ہونے لگا، وہ کہے گا: اے میرے بھائی! مجھے تیرے بعد ایسی جگہ پر روک لیا گیا، جو بڑی ہولناک اور مکروہ تھی اور تیرے پاس پہنچنے تک مجھ سے اس قدر پسینہ نکلا کہ اگر حَمْض پودا کھانے والے ایک ہزار اونٹ اس کو پینے کے لیے آتے تو وہ سیراب ہو کر واپس جاتے۔
Haidth Number: 9328
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۳۲۸) تخریج: اسنادہ ضعیف، دوید مجھول، وسلم بن بشیر، قال الحسینی: مجھول، وقال ابن معین: لیس بہ بأس (انظر: ۲۷۷۰)

Wazahat

فوائد:… حَمْض : یہ ایک ساق پر کھڑا ہونے والا نمکین اور ترش پودا ہوتا ہے اور مویشیوں کے لیے ایسے ہی خوش گوار چارہ ہوتا ہے، جیسے انسان کے لیے پھل، یہ پودا کھانے سے جانوروں کو پیاس لگتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس باب میں مذکورہ احادیث پر غور کیا جائے، ان میں کسی خاص فقیر اور کسی خاص امیر کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ حقیقتیہ ہے کہ مال و دولت ایک نعمت ِ عظمی ہے،لیکن اس نعمت کے تقاضے پورے کرنا بہت مشکل کام ہے اور عملی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جوں جوں سرمایہ بڑھتا جائے گا، مزاج میں فساد اور بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ کسی کی رائے کی روشنی میں نہیں، شرعی نصوص کی روشنی میں کیا جائے گا کہ سرمایہ دار پر کون کون سے حقوق عائد ہوتے ہیں، صرف ایک مثال پر غور کریں: سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے زیادہ فضیلت والے امتی ہیں، عظمت و منقبت میں سیدنا سلمان، سیدنا صہیب اور سیدنا بلال کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، دوسرا نقطہ ذہن نشین کریں کہ سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیس اکیس سالہ اسلام دشمنی کے بعد فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے، لیکنیہ بھی اللہ کریم کا فضل ہے کہ بالآخر ان کو ہدایت نصیب ہو گئی، ہر مسلمان کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بطورِ صحابی قبول کرے، لیکن جب سیدنا سلمان، سیدنا صہیب اور سیدنا بلال نے سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اسلام دشمنی اور اذیتوں کو سامنے رکھ کر یہ تبصرہ کیا کہ اللہ کے دشمن کی گردن اتارنے میں اللہ کی تلواروں نے اپنا حق ادا نہیں کیا ، ان کی مراد یہ تھی کہ ابو سفیان قبولیت ِ اسلام سے پہلے قتل ہو جاتا تو بہتر تھا، حقیقت میں تو یہ تبصرہ شرعی اصولوں کے مطابق مناسب نہیں تھا، اسی بنا پر جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اِن فقیر صحابہ سے صرف یہ کہا کہ کیا تم یہ بات قریشکے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہتے ہو (کچھ تو خیال کرو)؟ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات انتہائی مناسب تھی، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فقیر صحابہ کا خیال کر کے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو وعید سناتے ہوئے یوں خطاب فرمایا: اے ابو بکر! شاید تو نے ان کو ناراض کر دیا ہو اور اگر تو نے ان کو ناراض کر دیا تو تیرا ربّ بھی تجھ پر ناراض ہو جائے گا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کی طرف لوٹے اور کہا: اے ہمارے بھائیو! شاید تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ تجھ کو بخش دے۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں صرف اس چیز کا خیال رکھا گیا کہ کہیں سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جیسے لوگوں کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ فقیروں اور غریبوں کے حقوق کیسے ہیں۔ کیا آج ان کی ادائیگی کی جا رہی ہے؟ صرف صدقہ و خیرات کرنے سے یہ حق ادا نہیں ہو گا، صدقہ تو سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی بڑا کرتے تھے، ہمارا معاشرہ اسلامی نہیں رہا، ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے لیے باعث ِ ناز نہیں سمجھتے، اسلام صرف نماز کی ادائیگی اور حج و عمرہ کے سفروں کا نام نہیں ہے، اسلام کی سب سے بڑی خوبییہ ہے کہ دل کو ہر قسم کی آلائش سے پاک کر کے اس میں ایسی طہارت لانا چاہتا ہے کہ جس کی وجہ سے ہر اسلامی حکم کو قبول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن ہائے افسوس! ہمارے معاشرے میں احترام و اکرام، مودّت و محبت اور دوستی و یاری کا معیار کسی کا ایمان و ایقان اور اسلام و استسلام نہیں رہا، بلکہ ہم یا تو اپنے بڑوں کییاریوں کو برقرار رکھیں گے یا پھر کسی کے مال و منال اور جاہ و منصب کو کسوٹی بنائیں گے۔ فقر و فاقہ اور تنگ دستی و بدحالی میں مبتلا لوگوں سے ملاقات کرتے وقت تو ہمارے چہروں پر مسکراہٹ کا اظہار نہیں ہو سکتا، لیکن جب کوئی دنیا دار اور جاگیر دار ہمارے گھرکا رخ کرے گا تو اس کا استقبال کرنے کے لیے تو گلاب کی پتیاں بکھیر دی جائیں گی، پرتکلف انداز اختیار کیا جائے گا اور حیثیت سے بڑھ کر اس کی ضیافت کی جائے گی۔ بہرحال ایسا کرنا کسی انسان کا بحیثیت ِ انسان کوئی کمال نہیں ہے، بحیثیت ِ مسلمان تو کجا۔