Blog
Books
Search Hadith

نیک آدمی کے لیے مناسب غِنٰی کی ترغیب کا بیان

۔ (۹۳۴۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) مِثْلُہُ وَزَادَ: ((وَاللّٰہِ! مَا اَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْفَقْرَ، وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ التَّکَاثُرَ، وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْعَمْدَ (وَفِیْ لَفْظٍ) وَمَا اَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْخَطَأَ وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ الْعَمْدَ۔ (مسند احمد: ۱۰۹۷۱)

۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ یہ الفاظ زیادہ ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں فقیری کا ڈر نہیں ہے، مجھے تو کثرتِ مال کا ڈر ہے۔ ایک روایت میں ہے: مجھے تمہارے بارے میں بلا ارادہ غلطی کرنے کا ڈر نہیں ہے، جان بوجھ کر گناہ کرنے کا ڈر ہے۔
Haidth Number: 9343
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۳۴۳) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم ، وانظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:… اس حدیث میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ فقر کی مضرّت، غِنٰی کی مضرّت سے زیادہ ہے، کیونکہ فقیری سے صرف دنیا کو نقصان پہنچتا ہے، جبکہ غِنٰی کا ضرر دین کو نقصان پہنچاتا ہے، اس گزارش کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اکثر و بیشتر مالدار لوگوں کا مال ان کو اللہ تعالیٰ اور موت سے غافل کر دیتا ہے، وہ دنیا کی رنگینیوں میں پڑ جاتے ہیں اور فقراء و مساکین پر شفقت کرنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ فقیری بھی اس آدمی کے لیے مفید ہے جو صبر کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر شریعت کے احکام کا لحاظ رکھنے والا ہو۔ اگر دنیوی مال و دولت کے ساتھ دینی تعلیمات کی روشنی میں تقوی و پرہیزگاری کی نعمت مل جائے تو پھر سرمایہ امورِ خیر کا سبب بن جائے گا، درج بالا تمام احادیث ِ مبارکہ کا مفہوم درج ذیل حدیث میں بیان کیا گیا ہے: سیدنا ابو کبشہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنّمَا الدُّنْیَا لِاَرْبَعَۃِ نَفَرٍ، عَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مَالًا وَعِلْمًا فھُوَ یَتَّقِیْ فِیْہِ رَبَّہُ، یَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ وَیَعْلَمُ لِلّّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فِیْہِ حَقَّہُ، قَالَ: فَھٰذَا بِاَفْضَلِ الْمَنَازِلِ۔)) قَالَ: ((وَعَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عِلْمًا وَلَمْ یَرْزُقْہُ مَالاً ۔)) قَالَ: فَھُوَ یَقُوْلُ: لَوْ کَانَ لِیْ مَالٌ عَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ، قَالَ: ((فَاَجْرُھُمَا سَوَائٌ۔)) قَالَ: ((وَعَبْدٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ مَالاً وَلَمْ یَرْزُقْہُ عِلْمًا فَھُوَ یَخْبِطُ فِیْ مالِہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَا یَتَّقِیْ فِیْہِ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ، وَلَا یَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ، وَلَا یَعْلَمُ فِیْہِ لِلّٰہِ حَقَّہُ، فَھٰذَا اَخْبَثُ الْمَنَازِلِ۔)) قَالَ: ((وَعْبْدٌ لَمْ یَرْزُقْہُ اللّٰہُ مَالاً وَلَا عِلْمًا فَھُوَ یَقُوْلُ: لَوْ کَانَ لِیْ مَالٌ لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ، قَالَ: ھِیَ نِیَّتُہُ۔)) … دنیا صرف چار افراد کے لیے ہے، (۱) وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی عطا کیا اور علم بھی اور وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے اور اس سے متعلقہ اللہ تعالیٰ کے حق کو پہنچانتا ہے، یہ آدمی سب سے افضل منزلت والا ہے، (۲) وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا، مال نہیں دیا، پس وہ نیک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں آدمی کی طرح نیک کام کرتا، ان دونوں کا اجر برابر ہے، (۳) وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، علم نہیں دیا، پس وہ اپنے مال کو بے تکا اور بغیر سوچے سمجھے خرچ کرتا ہے اور اس کے بارے میں نہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس سے متعلقہ اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے، یہ آدمی سب سے گھٹیا مرتبے والا ہے، اور (۴) وہ آدمی جس کو نہ اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور نہ علم، لیکن اس گھٹیا آدمی کے کردار کو سامنے رکھ کر کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں کی طرح کے کام کرتا، یہ اس کی نیت ہے۔ (ترمذی: ۲۳۲۵، مسند احمد:۱۸۰۳۲)