Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنے اور بغض رکھنے کی ترغیب اور ایساکرنے پر برانگیختہ کرنے کا بیان

۔ (۹۴۴۶)۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَیُّ عُرَی الْاِسْلَامِ اَوْسَطُ؟)) قَالُوْا: الصَّلاۃُ، قَالَ: ((حَسَنَۃٌ وَمَا ھِیَ بِھَا۔))، قَالُوْا: الزَّکَاۃُ، قَالَ: ((حَسَنَۃٌ وَمَا ھِیَ بِھَا۔))، قَالُوْا: صِیَامُ رَمَضَانَ، قَالَ: ((حَسَنٌ وَمَا ھُوَ بِہٖ۔))،قَالُوْا: الْحَجُّ،قَالَ: ((حَسَنٌوَمَاھُوَبِہٖ۔))،قَالُوْا: الْجِھَادُ،قَالَ: ((حَسَنٌ وَمَاھُوَ بِہٖ۔)) قَالَ: ((اِنَّ اَوْسَطَ عُرَی الْاِیْمَانِ اَنْ تُحِبَّ فِی اللّٰہِ وَتُبْغِضُ فِی اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۲۳)

۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام کا کون سا کڑا (یعنی نیک عمل) زیادہ ممتاز اور عالی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی نماز ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز بھی اچھا عمل ہے اور اس کے بعد والا کون سا عمل ہے؟ لوگوں نے کہا: جی زکوۃ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زکوۃ بھی اچھا ہے اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: جی رمضان کے روزے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ عمل بھی اچھا ہے، اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: جی حج ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حج بھی اچھا عمل ہے اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی جہاد ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہاد بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود فرمایا: ایمان کا سب سے ممتاز اور اعلی کڑا (یعنی نیک عمل) یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بغض رکھے۔
Haidth Number: 9446
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۴۴۶) تخریج: حدیث حسن بشواھدہ، أخرجہ ابن ابی شیبۃ: ۱۱/ ۴۱، والبیھقی فی الشعب : ۱۳ (انظر: ۱۸۵۲۴)

Wazahat

فوائد:… محبت کی دو قسمیں ہیں: (۱) طبعی اور (۲) کسبی طبعي محبت وہ ہے جو انسان کو طبعی طور پر اپنے قرابتداروں اور محسنوں سے ہوتی ہے، یہ محبت انسان کا کمال اور طرۂ امتیاز نہیں، کیونکہ تقریبا تمام حیوانات بھی اس صفت سے متصف نظر آتے ہیں۔ کسبي محبت سے مراد مومنوں کا آپس میں تعلق اور دوستی ہے، جیسا کہ صحابہ کرام ،بالخصوص مہاجرین و انصار کے مابین تھی،یہ دینی محبت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے، اس سے کوئی دنیوی مفاد اور غرض وابستہ نہیں ہوتی۔ ایسی محبت کو نہ صرف شریعت ِ اسلامیہ میں سراہا گیا ہے، بلکہ ایمان و ایقان کی علامت قرار دیا گیا ہے، یاد رہے کہ ایسی محبت و الفت صرف نیک اور صالح لوگوں سے ہوتی ہے۔ اس باب کی احادیث میں کسبی محبت کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں اور اس کو عزتیں عطا کرتے ہیں۔ یہ مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس کی دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ اس معاملے میں رنگ و نسل، سیاست و سیادت، ذات پات اور قبیلہ و برادری کو ترجیح نہیں دیتا ہے، اگر اس نے کسی سے تعلق کو مضبوط کیا ہے تو اس بنا پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہے اور اگر کسی سے بغض رکھا تو وہ بھی اس بنا پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ عصرِ حاضر میں اس قسم کا تعلق انتہائی شاذ و نادر ہے، بلا شبہ ہر کوئی اپنی دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے، لیکن کسی کی بنیاد حسن و جمال ہے، کوئی برادری ازم کو ترجیح دیتا ہے، کوئی سکول کی کلاس اور علاقہ کو مد نظر رکھتا ہے، کوئی اپنے بڑوں کے تعلق کا لحاظ کر رہا ہے، کوئی اپنے پیشے کے لوگوں کو اپنی محبتوں کا مستحق سمجھ رہا ہے، غرضیکہ محض اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے دوسروں لوگوں سے محبت کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ قارئین کرام! یہ نقطہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کسی برے آدمی سے بغض یا عدم دوستی کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے مکمل طور پر قطع تعلقی کی جائے یا جہاں وہ ملے اس سے اعراض کیا جائے۔ شریعت ِ اسلامیہ نے کافروں اور مشرکوں سے بھی حالات کے مطابق حسن سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غیر مسلموں کی دعوت بھی قبول کر لیا کرتے تھے۔ شریعت نے جس دوستی و دشمنی کی تعلیم دی ہے، اس کا تعلق دل سے ہے اور جنگ جیسے مخصوص زمان و مکاں میں ظاہری حالات سے بھی ہوتا ہے۔ اس چیز کو آپ اس مثال سے سمجھیں کہ آپ کے سامنے پانچ پانچ سال عمر کے دو بچے کھڑے ہیں، ایک آپ کا اپنا بچہ ہے اور دوسرا کسی ایسے آدمی کا ہے، جس کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ لیکن آپ شریعت کا لحاظ کر کے دونوں بچوں سے ظاہری طور پر برابر کا پیار کرتے ہیں، دونوں کے سروں پر دست ِ شفقت رکھتے ہیں، دونوں کو کھانے کے لیے برابر مقدار کی چیز دیتے ہیں، لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ کے دل میں جتنا پیار و محبت اپنے بچے کا ہے، اتنا کسی دوسرے کا نہیں ہو سکتا، آپ کو جو لطف اپنے بچے سے پیار کر کے ہو گا، وہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ محبت کرنے سے محسوس نہیں ہوتا، بلکہ بعض لوگ اپنے غیر نمازی بچے کو دوسروں کے نمازی بچوں پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کے بارے میں ہے کہ آپ کے دل میں جو مقام مکمل مسلمان کا ہو، وہ ناقص مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کا نہیں ہو نا چاہیے۔ اب آپ درج ذیل احادیث ِ مبارکہ کا بغور مطالعہ کریں۔