Blog
Books
Search Hadith

ضرورت کے علاوہ راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت کا بیان

۔ (۹۴۸۷)۔ عَنْ اَبِیْ شُرَیْحٍِ بْنِ عَمْرٍو الْخُزَاعِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ عَلَی الصُّعُدَاتِ، فَمَنْ جَلَسَ مِنْکُمْ عَلَی الصَّعِیْدِ فَلْیُعْطِہِ حَقَّہُ۔)) قَالَ: قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا حَقُّہُ؟ قَالَ:((غُضُوْضُ الْبَصَرِ، وَرَدُّ التَّحِیَّۃِ، وَاَمْرٌ بِمَعْرُوْفٍ، وَنَھْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۷۰۵)

۔ سیدنا ابو شریح بن عمرو خزاعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے بچو، اگر کوئی راستے میں بیٹھنا چاہے تو وہ اس کا حق ادا کرے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نظر کو جھکا کر رکھنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔
Haidth Number: 9487
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۴۸۷) تخریج: اسنادہ ضعیف جدا، عبد اللہ بن سعید المقبری متروک الحدیث، أخرجہ الطبرانی فی الکبیر : ۲۲/۴۴۸ (انظر: ۲۷۱۶۳)

Wazahat

فوائد:… ان احادیث ِ مبارکہ میں اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ انسانیت کو ہر قسم کی تکلیف سے بچانے کے لیے صرف اسلام نے ٹھوس اقدامات کئے ہیں کہ عام راستوں اور گزرگاہوں کو معاشرے کی اجتماعی ملکیت قرار دیا۔ اس لیے ان پر مجلسیں جما کر بیٹھنا صحیح نہیں، اس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہو سکتی ہے، بالخصوص پردہ دار عوتوں کو، جو لوگوں کے سامنے آنے یا ان کے سامنے سے گزرنے کو ناپسند کرتی ہیں۔ اگر کسی مجبوری کی بنا پر کسی گزرگاہ پر بیٹھنا ہی پڑ جائے تو ایسا انداز اختیار کیا جائے کہ گزرنے والوں کو کوئی تکلیف نہ ہو، مثلاً گزرنے والی عورتوں سے نظر بچا کر رکھنا، اچھی گفتگو کرنا، زیادہ بوجھ لادے ہوئے آدمی کی مدد کرنا، مظلوم اور مصیبت زدہ کے ساتھ تعاون کرنا، بھٹکے ہوئے کی رہنمائی کر دینا، سلام کا جواب دینا۔ اگراسلام میں شاہراہوں اور گزرگاہوں کے حقوق یہ ہیں تو پھر ان پر تجاوزات قائم کر کے یا شادی بیاہ کے موقع پر ان کو بند کر کے یا لڑکوں کا سڑکوں پر کھیلیں شروع کر کے ہزاروں انسانوں کو تکلیف دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ لیکن بدقسمتی سے یہ چیز ہمارے ملک میں عام ہے۔ مزید کہا جا سکتا ہے کہ تنگ سڑکوں، موڑوں اور اترائی و چڑھائی پر (LT ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) یعنی چھوٹی گاڑی والوں کو (HT ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) یعنی بڑی ٹرانسپورٹ کا خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ ٹریلر اور ٹرک وغیرہ کا سڑک سے اترنا مشکل ہوتا ہے۔ شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ احادیث چند ایک اہم آداب ِ اسلامی پر مشتمل ہیں، جن کا تعلق راستوں اور گھروں کے صحنوں میں بیٹھنے سے ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان آداب کا احترام کریں، بالخصوص ان امور کا، جو فرض ہیں، مثلاً عورتوں سے نگاہوں کو پست کرنا کہ دوسری کئی احادیث میں بھی اس کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَیَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ} … مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،یہی ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے، لوگ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ (سورۂ نور: ۳۰) غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم امت ِ اسلامیہ کی پہلی نسل یعنی صحابہ کرام کو براہِ راست دیا گیا، حالانکہ وہ مطہّر اور منوّر تھے اور ان کے لیے کسی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ جسم کا کوئی اور حصہ دیکھنا ممکن ہی نہ تھا، جیسا کہ مختلف احادیث سے پتہ چلتا ہے، مثال کے طور پر خثعمی عورت کی حدیث اور بنت ِ ہبیرہ وغیرہ کی حدیث ہے، جو میری تصنیفات (جلباب المرأۃ) اور (آداب الزفاف) میں مذکور ہیں۔ میں کہتا ہوں: جس زمانے میں صرف عورت کے چہرے اور ہاتھوں پر نگاہ پڑنا ممکن تھی، اس وقت بھی نگاہیں پست رکھنے کا حکم تھا۔ کوئی شک وشبہ نہیں کہ عصرِ حاضر میں اس حکم میں مزید تاکید پیدا ہو گئی ہے، جس میں عورتوں نے لباس بھی زیب ِ تن کر رکھا ہوتا ہے اور ننگی بھی ہوتی ہیں۔ ان ہی عورتوں کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: بعض عورتوں ایسی بھی ہوں گی کہ جو ملبوس ہونے کے باوجود برہنہ ہوں گی، وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی …۔ (صحیحہ: ۱۳۲۶) اس لیے بالعموم ہر مسلمان پر اور بالخصوص ہر مسلم نوجوان پر واجب ہے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھا کرے، خاص طور پر (مختلف چوراہوں پر آویزاں) حیا سوز اور ہیجان انگیز تصاویر کو دیکھنے سے گریز کریں۔ ایسے دور میں نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ان فتنوں سے بچنے کے لیے پہلی فرصت میں شادی کریں اور استطاعت نہ ہونے کی صورت میں روزے رکھنے کا اہتمام کریں، اس سے بری خواہشات ختم ہو جاتی ہیں۔ سو میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق دے اور اپنی نافرمانیوں سے محفوظ رکھے، بیشک وہ سننے والا اور جواب دینے والا ہے۔