Blog
Books
Search Hadith

ثنائیات کا بیان

۔ (۹۵۶۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَعْضِ جَسَدِیْ، فَقَالَ: ((اعْبُدِ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ، وَکُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔)) (مسند احمد: ۶۱۵۶)

۔ حضرت عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے جسم کا ایک حصہ پکڑا اور فرمایا: اللہ کی عبادت اس طرح کروکہ گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور دنیا میں اس طرح ہو جاؤ کہ گویا کہ تم اجنبییامسافر ہو۔
Haidth Number: 9560
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۵۶۰) تخریج: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین (انظر: ۶۱۵۶)

Wazahat

فوائد:… جیسے آدمی سفر کے دوران یا اجنبی لوگوں کے درمیان نہ دل لگاتا ہے اور نہ اپنے وجود کا خاص خیال رکھتاہے، اسی طرح کامعاملہ دنیا کا ہے، یہ دل لگانے کی جگہ نہیں ہے اور یہاں کسی کی پروا نہیں ہونی چاہیے، سوائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے۔ اللہ کی عبادت اس طرح کروکہ گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو حدیث ِ جبریل میں عابد کی اس کیفیت کو احسان کہا گیا ہے۔ حافظ ابن حجرl نے کہا: عبادت کے اس انداز یا احسان کا معنی و مفہوم یہ ہوتا ہے کہ عبادت کو پرخلوص بنایا جائے، اس میں خشوع و خضوع کا خوب اہتمام کیا جائے، عبادت کے دوران اسی کی طرف مکمل توجہ کی جائے اور دل میں معبودِ برحق کا خوف رکھا جائے۔ سیدنا ابو دردائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث میں دو کیفیتوں کو بیان کیا گیا ہے، سب سے اعلی کیفیت اور حالت یہ ہے کہ عبادت کرنے والے پر یہ تصور غالب آجائے کہ وہ دل سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا تھا اور یہ تصور اتنا مضبوط ہو کہ بالآخر اسے یوں محسوس ہو کہ وہ اپنی آنکھوں سے حق تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے کأنک تراہ کا یہی معنی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کم از کم وہ یہ حقیقت تو ذہن نشین کر لے اللہ تعالیٰ اس کے ہر عمل سے آگاہ ہے، فانہ یراک کا یہ مفہوم ہے۔ ان دونوں حالتوں کا نتیجہیہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ سے معرفت ہو گی اور دل میں اس کی خشیت پیدا ہو گی۔ امام نووی نے کہا: اس کا معنییہ ہے کہ جب تم اور اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہو گے تو تم تمام آداب کا لحاظ کرو گے، بہرحال تم نہیں دیکھ رہے ہوتے، جبکہ وہ ہر وقت تم کو دیکھ رہا ہوتا ہے، اس لیے تم کو چاہیے کہ عبادت میں حسن پیدا کرو۔ اس حدیث کا تقدیری معنییہ ہو گا: اگر تم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو پھر بھی اچھے انداز میں عبادت کو جاری رکھو، کیونکہ وہ تو تجھے دیکھ رہا ہوتا ہے، حدیث ِجبریل کا یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اصولِ دین میں سے ایک عظیم اصل اور قواعد المسلمین میں سے ایک اہم قاعدہ ہے۔ یہ صدیقوں کا سہارا ہے، سالکین کا مقصد ہے، عارفین کا خزانہ ہے اور صالحین کی عادت ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو جوامع الکلم عطا کیے گئے، یہ جملہ ان میں سے ایک ہے۔ غور فرمائیے کہ اہل تحقیق نے صالح لوگوں کی مجالس میں بیٹھنے کو مستحب قرار دیا ہے، تاکہ ان کے احترام میں اور ان سے شرم محسوس کرتے ہوئے معائب و نقائص سے بچا جا سکے، تو پھر اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ظاہری ومخفی حالات سے آگاہ رہتا ہے۔ (فتح الباری: ۱/ ۱۶۰) امام نووی نے کہا: اس کا معنییہ ہے کہ جب تم اور اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہو گے تو تم تمام آداب کا لحاظ کرو گے، بہرحال تم نہیں دیکھ رہے ہوتے، جبکہ وہ ہر وقت تم کو دیکھ رہا ہوتا ہے، اس لیے تم کو چاہیے کہ عبادت میں حسن پیدا کرو۔ اس حدیث کا تقدیری معنییہ ہو گا: اگر تم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو پھر بھی اچھے انداز میں عبادت کو جاری رکھو، کیونکہ وہ تو تجھے دیکھ رہا ہوتا ہے، حدیث ِجبریل کا یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اصولِ دین میں سے ایک عظیم اصل اور قواعد المسلمین میں سے ایک اہم قاعدہ ہے۔ یہ صدیقوں کا سہارا ہے، سالکین کا مقصد ہے، عارفین کا خزانہ ہے اور صالحین کی عادت ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو جوامع الکلم عطا کیے گئے، یہ جملہ ان میں سے ایک ہے۔ غور فرمائیے کہ اہل تحقیق نے صالح لوگوں کی مجالس میں بیٹھنے کو مستحب قرار دیا ہے، تاکہ ان کے احترام میں اور ان سے شرم محسوس کرتے ہوئے معائب و نقائص سے بچا جا سکے، تو پھر اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ظاہری ومخفی حالات سے آگاہ رہتا ہے۔ (فتح الباری: ۱/ ۱۶۰)