Blog
Books
Search Hadith

عورتوں اور ان کو جنت میں داخل کرنے والے اعمال کا بیان

۔ (۹۶۴۴)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَامَعْشَرَ النِّسَائِ، تَصَدَّقْنَ وَاَکْثِرْنَ، فَاِنِّیْ رَاَیْتُکُنَّ اَکْثَرَ اَھْلِ النَّارِ لِکَثْرَۃِ اللَّعْنِ وَکُفْرِ الْعَشِیْرِ، مَارَاَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ اَغْلَبَ لِذِیْ لَبٍّ مِنْکُنَّ۔)) قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَانُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّیْنِ؟ قَالَ: ((اَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَ الدِّیْنِ، فَشَھَادَۃُ امْرَاَتَیْنِ تَعْدِلُ شَھَادَۃَ رَجُلٍ، فَھٰذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْکُثُ اللَّیَالِیَ لَاتُصَلِّیْ وَتُفْطِرُ فِیْ رَمْضَانَ فَھٰذَا نُقْصَانُ الدِّیْنِ۔)) (مسند احمد: ۵۳۴۳)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو اور کثرت سے کرو، کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جہنم کی اکثریت تم ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم لعن طعن اور خاوند کی ناشکری بہت زیادہ کرتی ہو ، میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم عورتوں سے زیادہ کسی عقل مند پر غالب آ جانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ایک خاتون نے کہا: ہمارے عقل اور دین کی کمی کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عقل اور دین کی کمییہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے، یہ عقل کا نقص ہے اور عورت حیض کے دنوں میں نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں روزے نہیں رکھتی،یہ د ین کا نقص ہے۔
Haidth Number: 9644
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۶۴۴) تخریج: أخرجہ مسلم: ۷۹ (انظر: ۵۳۴۳)

Wazahat

فوائد:… خواتین کا کثرت سے لعن طعن کرنا، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ کسی سے راضییا ناراض ہونے یا کسی کو اچھا یا برا سمجھنے میں معیار اپنی سمجھ اور ذات کو قرار دیتی ہیں اور اس معاملے میں انتہائی قریبی رشتہ دار کو ٹھکرا دیتی ہیں اور دور کے رشتہ داروں، بلکہ اجنبی لوگوں کی تعریف کرنے لگتی ہیں، جس نے خوشی کے موقع پر کسی کے بچے کو پانچ سو روپیہ دے دیا، وہ جنتی بن جائے گا اور جس نے کسی خاتون کے بچے یا والدین وغیرہ کے بارے میں قابل اعتراض بات کر دی، بس وہ اپنی خیر منائے، جبکہ شرعی تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کے مثبت اور منفی پہلو، دونوں پر غور کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ مثبت پہلو ہی غالب رہے۔