Blog
Books
Search Hadith

ایسے امور کی ترہیب کا بیان جن کا تعلق بڑی نافرمانیوں سے ہے اور ان کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے،نیز ان کے فاعل کی وعید کا بیان

۔ (۹۶۸۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْروِ بْنِ وَالْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اَلظُّلْمُ ظُلْمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَاِیَّاکُمْ الْفُحْشَ، فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ، وَلَا التَّفَحُّشَ، وَاِیَّاکُمْ وَالشُّحَّ، فَاِنَّ الشُّحَّ اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، اَمَرَھُمْ بِالْقَطِیْعَۃِ فَقَطَعُوْا، وَاَمَرَھُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوْا، وَاَمَرَھُمْ بِالْفُجُوْرِ فَفَجَرُوْا۔)) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَارَسُوْلُ اللہ! اَیُّ الْاِسْلَامِ اَفْضَلُ؟ قَالَ: ((اَنْ یَسْلَمَ الْمُسْْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِکَ وَیَدِکَ۔)) اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند احمد: ۶۴۸۷)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:ظلم کرنے سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن (کئی) ظلمتوں کا باعث بنے گا، بدگوئی سے بچو، بیشک اللہ تعالیٰ بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا اور مال کی شدید محبت سے بچو! اس لیے کہ اس چیز نے تم سے پہلے والے لوگوں کو ہلاک کیا، اس نے ان کو قطع رحمی کا حکم دیا، پس انھوں نے قطع رحمی کی، اِس نے ان کو بخل پر آمادہ کیا، پس انھوں نے بخل کیا اور اس نے ان کو برائیوں کا حکم دیا، پس انھوں نے برائیاں کیں۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ دوسرے مسلمان تیری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔
Haidth Number: 9682
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۶۸۲) تخریج: اسنادہ صحیح، أخرجہ ابن حبان: ۵۱۷۶، والحاکم: ۱/۱۱ (انظر: ۶۴۸۷)

Wazahat

فوائد:… بخل اور حرص جیسے اوصاف انسان کے کمینہ ہونے کے لیے کافی ہیں، بخیل آدمی سنگ دل بن جاتا ہے، دوسروں کی خوشی و غمی سے مستغنی ہو جاتا ہے، اپنے روپے پیسے کو بچانے یا اس کو بڑھانے کے لیے وہ قتل و غارت گری جیسے اقدامات کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور شریعت میں گنجائشیں تلاش کر تے کرتے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پھلانگنا شروع کر دیتا ہے۔ مال کی شدید محبت کو شُحّ کہتے ہیں۔ جب انسان کے دل میں دنیا اور دنیا کے مال و اسباب کی محبت حد سے تجاوز کر کے شدید ہو جائے تو انسان حرام اور حلال کے درمیان تمیز بھی نہیں کرتا اور دسرے انسانوں کا خون بہانے سے گریز بھی نہیں کرتا۔ جیسے آج کل ہمارے معاشرے کا حال ہے اور یہ حالت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس معاشرے کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں ہے، یہ دیریا سویر ہلاکت سے دو چار ہو کر ہی رہے گا۔ دنیا میں کیا گیا ایک ظلم، روزِ قیامت کئی ظلمتوں کا سبب بنے گا، جیسے اگر کوئی آدمی گائے کی خیانت کرتا ہے تو وہ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر میدانِ حشر میں آئے گا، جبکہ وہ گائے بلبلا رہی ہو گی،یہی معاملہ ہر جانور اور دوسری خیانتوں کا ہے۔ کسی چیز کو بے موقع یا بے محل رکھنا ظلم کہلاتا ہے، اس اعتبار سے برائیوں کا ارتکاب کرنا اور فرائض و واجبات کی ادائیگی میں غفلت برتنا ظلم ہے۔