Blog
Books
Search Hadith

ریاکاری سے ترہیب کا بیان،یہی شرک ِ خفی ہے، ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں

۔ (۹۷۱۶)۔ عَنِ ابْنِ الْاَدْرَعٍِ، قَالَ: کُنْتُ اَحْرُسُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ لَـْیلَۃٍ، فَخَرَجَ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ، قَالَ: فَرَآنِیْ فَاَخَذَ بِیَدِیْ فَانْطَلَقْنَا فَمَرَرْنَا عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّیْیَجْھَرُ بِالْقُرَآنِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَسٰی اَنْیَکُوْنَ مُرَائِیًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یُصَلِّیْیَجْھَرُ بِالْقُرْآنِ قَالَ: فَرَفَضَ یَدِیْ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّکُمْ لَنْ تَنَالُوْا ھٰذَا الْاَمْرَ بِالْمُغَالَبَۃِ۔)) قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ ذَاتَ لَـْیلَۃٍ وَ اَنَا اَحْرُسُہُ لِبَعْضِ حَاجَتِہِ فَاَخَذَ بِیَدِیْ فَمَرَرْنَا عَلٰی رَجُلٍ یُصَلِّیْ بِالْقُرآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: عَسٰی اَنْ یَکُوْنَ مُرَائِیًا فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَلَّا اِنَّہُ اَوَّابٌ۔)) قَالَ: فَنَظَرْتُ فَاِذَا ھُوَ عَبْدُ اللّٰہِ ذُوْالْبِجَادَیْنِ ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۸۰)

۔ سیدنا ابن ادرع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی کام کے لیے نکلے، جب مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا، پس ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوازِ بلند تلاوت کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ یہ ریاکاری کرنے والا بن جائے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ قرآن کی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہے، (بھلا اس میں کیا حرج ہے)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا: تم اس دین کو غلبے کے ساتھ نہیں پا سکتے۔ وہ کہتے ہیں: پھر ایکرات کو ایسے ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی ضرورت کے لیے نکلے، جبکہ میں ہی پہرہ دے رہا تھا، (اسی طرح) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (اور ہم چل پڑے) اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوازِ بلند قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ اب کی بار میں نے کہا: قریب ہے کہ یہ شخص ریاکاری کرنے والا بن جائے۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (میرا ردّ کرتے ہوئے) فرمایا: ہر گز نہیں،یہ تو بہت توبہ کرنے والا ہے۔ جب میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عبد اللہ ذو االبجادین تھے۔
Haidth Number: 9716
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Doubtful

ضعیف

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۷۱۶) تخریج: اسنادہ ضعیف، تفرد بہ ھشام بن سعد، وھو ضعیف (انظر: ۱۸۹۷۱)

Wazahat

فوائد:… بلا شک و شبہ از روئے شریعت نماز میں بآوازِ بلند قرآن مجید کی تلاوت کرنا درست ہے، جیسا کہ اس حدیث کے دوسرے حصے سے بھی ثابت ہو رہا ہے۔ اس حدیث کے پہلے حصے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس شخص میں ریاکاری کا امکان ظاہر کیا ہے، یقینایہ قرائن یا بصیرتیا وحی کی بنا پر تھا، کیونکہ جب آپ کے ساتھی سیدنا ابن ادرع نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سابقہ حدیث کو نمونہ بناتے ہوئے یہی بات سیدنا عبد اللہ ذو البجادین کے بارے میں کہی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ردکر دیا، حالانکہ دونوں بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ ہاں پہلے شخص کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا یہ کہنا کہ تم اس دین کو غلبے کے ساتھ اس دین کو نہیں پا سکتے۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یا تو ایسے مقام پر کھڑا تھا کہ اس کے عمل کا بہت زیادہ اظہار ہو رہا تھا اور یہ چیز ریاکاری کا سبب بن سکتی ہے یابہت طویل قیام کر رہا تھا یا اس کی آواز بہت زیادہ بلند تھی، اس طرح وہ اعتدال اور میانہ روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد ہم کسی شخص پر ریاکاری کا الزام نہیں لگا سکتے، دونوں آدمی بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کے بارے میں ریاکاری کے شبہ کا اظہار کر دیا، جبکہ دوسرے کے بارے میں کلمۂ خیر کہا۔ ہاں لوگوں کو غلوّ اور افراط سے بچنے کی اور اعتدال کے ساتھ عبادت کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ اگرچہ آج کل تبصرے کا دور ہے، بری تو بری، دوسروں کی اچھی خصلتوں پر بھی ناقدانہ تبصرہ کیا جاتا ہے یا اچھے شخص کی کمی کوتاہیوں کو ہوا دے کر تبصرہ نگار بزعم خود اپنے آپ کو انسانِ کامل خیال کرتا ہے۔ ایک مسجد کی انتظامیہ کا ایک فرد مسجد کے خادم پر اس بنا پر تبصرہ کر رہا تھا کہ وہ فجر کی اذان بغیر وضو کے دے دیتاہے، میں نے اس سے پوچھا کہ آپ خود نمازِ فجر ادا کرتے ہیں؟ جناب نے منفی میں جواب دیا۔ ہائے خرابی! نماز سے محروم شخص اس بندۂ خدا پر نقد کر رہا ہے، جو فجر کی اذان دیتا ہے اور لوگوں کو باجماعت نمازِ فجر پڑھاتا ہے۔ جرم ہے بغیر وضو کے اذان دینا، جو شریعت میں سرے سے غلطی ہی نہیں ہے، اگرچہ افضل عمل یہی ہے کہ طہارت کا اہتمام کیا جائے۔ قارئین کرام! التماس یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں نیکی کے آثار پائے جاتے ہیں تو ان کو قبول کرنا چاہیے اور اس بنا پر اس کی قدر کرنی چاہیے۔