Blog
Books
Search Hadith

نسب وغیرہ کے معاملے میں آباء پر مفاخرت کرنے سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۷۳۹)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اَنْسَابَکُمْ ھٰذِہِ لَیْسَتْ بِسِبَابٍ عَلٰی اَحَدٍ، وَاِنّمَا اَنْتُمْ وَلَدُ آدَمَ، طَفُّ الصَّاعِ لَمْ تَمْلَأُوْہُ، لَیْسَ لِاَحَدٍ فَضْلٌ اِلَّا بِالدِّیْنِ، اَوْ عَمَلٍ صَالِحٍ، حَسْبُ الرَّجُلِ اَنْ یَکُوْنَ فَاحِشًا بَذِیًّا بَخِیْلًا جَبَانًا۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۴۶)

۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تمہارے یہ نسب کسی کے لیے کوئی عار و شنار والے نہیں ہیں، کیونکہ تم سارے آدم کی اولاد ہو، اور بھرے ماپ سے کم ہو (یعنی کوئی بھی تم میں پورا اور کامل نہیں، ہر ایک میں کچھ نہ کچھ نقص ہے) اور کسی کو کسی پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر دین اور عملِ صالح کی بنا پر۔ آدمی کے (برا ہونے کے لیے) یہی کافی ہے کہ وہ فحش گو ، بدکلام ، بد اخلاق، بخیل اور بزدل ہو۔
Haidth Number: 9739
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۷۳۹) تخریج: اسنادہ حسن، أخرجہ البیھقی فی الشعب : ۶۶۷۷(انظر: ۱۷۳۱۳)

Wazahat

فوائد:… ابن جریر کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((اَلنَّاسُ لِآدَمَ وَحَوَّائَ، کَطَفِّ الصَّاعِ لَمْ یَمْلَؤُہٗ، اِنَّ اللّٰہَ لَایَسْأَلُکُمْ عَنْ اَحْسَابِکُمْ، وَلَا عَنْ اَنْسَابِکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔)) … آدم علیہ السلام اور حوا ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ سے تمام لوگ پیدا ہوئے۔ لوگ اس صاع کی طرح ہیں، جس کو بھرا نہیں گیا۔ بیشک اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے حسب و نسب کے بارے میں سوال نہیں کرے گا، تم میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ معزز وہ ہو گا، جو سب سے زیادہ متقی ہو گا۔ کسی شخص کے سیّد، اعوان، راجپوت، آرائیں، جنجوعہ، وڑائچ، گادھی، لودھی وغیرہ ہونے میں کوئی کمال نہیں، کیونکہ جب تمام اقوام اپنا سلسلۂ نسب آگے بڑھائیں گی تو سب کے نسبوں کا اختتام آدم علیہ السلام پر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں صحت و عافیت، طاقت و قدرت، رعب و دبدبہ،غربت و امارت، حسن و جمال، مال و منال، خاندانی عظمت و کمال اور حسب و نسب کا کوئی دخل نہیں۔ ربّ جلیل کی نگاہِ انتخاب کی بنیاد بندوں کے تقوی و پارسائی اور نیکی و بھلائی پر ہے، جو اس سلسلے میں جتنا ممتاز ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا ہی معزز ہو گا۔ آخر میں صفات ِ ذمیمہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر کوئی آدمی فحش گوئی ، بدکلامی ، بد اخلاقی، بخیلی اور بزدلی سے متصف ہے تو اس کے بد ہونے کے لیےیہی صفات کافی ہیں۔