Blog
Books
Search Hadith

مال کی حرص کرنے سے ڈرانے کا بیان

۔ (۹۸۲۰)۔ عَنْ بُرَیْدِ بْنِ اَصْرَمَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، یَقُوْلُ : مَاتَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الصُّفَّۃِ، فَقِیْلَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَرَکَ دِیْنَارًا اَوْ دِرْھَمًا، فَقَالَ: ((کَیَّتَانِ، صَلُّوْا عَلَی صَاحِبِکُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۱۵۵)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی گئی کہ اے اللہ کے رسول! وہ تو ایک دیناریا ایک درہم چھوڑ کر فوت ہوا ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ آگ کے دو داغ ہیں، تم خود اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔
Haidth Number: 9820
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۸۲۰) تخریج: حدیث حسن لغیرہ (انظر: ۱۱۵۵)

Wazahat

فوائد:… جہاں میراث کے قوانین مقرر ہیں، وہاں قریب الموت آدمی کے لیےیہ حد بندی بھی کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے مال کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ وصیت نہیں کر سکتا ہے، اگر وہ اس مقدار سے زیادہ وصیت کرتا ہے تو اسے ردّ کر دیا جائے گا اور مال اس کے ورثا ء میں تقسیم کیا جائے گا، نیز شریعت کی روشنی میں کسی کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی وارث کے حق میں وصیت کرے۔ تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہوا؟ جواباً شیخ البانی ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ رقمطراز ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس آدمی کے بارے میں دو تین دیناروں کی وجہ سے اتنی سخت وعید بیان فرمائی ہے، معلوم ایسے ہوتا ہے کہ اس وعید کا بیچ میںکوئی اور سبب ہو گا، اس کا اظہار صرف دیناروں کی بنا پر نہیں کیا گیا، کیونکہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ میت مال کی اتنی مقدار چھوڑ جانے کی وجہ سے آگ کا حقدار نہیں ٹھہرتا ہے۔ آپ خود غور کریں کہ ایک طرف تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ترکہ چھوڑ جانے کی رغبت دلاتے ہوئے سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو فرمایا: اگر تو (اپنے ترکہ کے ذریعے) اپنے وارثوں کو غنی کر دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو ان کو اس حال میں چھوڑ جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست ِ سوال پھیلاتے پھریں۔ (بخاری، مسلم) اسی طرح جب نجدی نے زکوۃ کا مسئلہ سنا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا: کیا زکوۃ کے علاوہ بھی میرے مال میںکوئی حق ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ہاں اگر تم نفلی طور پر صدقہ کرنا چاہو (تو کر سکتے ہو)۔ (بخاری، مسلم) اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ مالدار زکوۃ کی ادائیگی کے بعد مال اپنے پاس رکھ سکتا ہے اور اسی حالت میں اس کو موت بھی آسکتی ہے۔ اس قسم کی بہت ساری احادیث ہیں جو زندگی میں مال و دولت جمع کرنے اور صاحب ِ مال کے فوت ہونے کے بعد اس کو اس کے وارثوں میں تقسیم کر دینے پر دلالت کرتی ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب یہ قائم کیا ہے: بَابُ مَنْ اَدَّیٰ زَکَاتَہٗفَلَیْسَ بِکَنْزٍ؛ لِقَوْلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ اَوْسُقٍ صَدَقَۃٌ …)) … زکوۃ کی ادائیگی کے بعد مال وہ خزانہ نہیں رہتا (جس کی مذمت کی گئی ہے) کیونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پانچ وسق سے کم غلہ پر زکوۃ لاگو نہیں ہوتی… اس بحث کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ اِس آدمی نے مال سے متعلقہ حقوق کی ادائیگی صحیح طور پر نہ کی ہو، مثلا اہل و عیال پر خرچ کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو لباس پہنانا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آدمی مال کے باوجود فقر و فاقے کا اظہار کرتا ہو، جیسا کہ علقمہ مزنی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: اہل صفہ، مسجد میں رات گزارتے تھے، ان میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا، جب اس کا ازار کھولا گیا تواس میں سے دو دینار نکلے، جن کو دیکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو داغ ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق: ۱/ ۴۲۱/ ۱۶۴۹) اور اس احتمال کا بھی امکان ہے کہ یہ شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہو۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ (صحیحہ: ۳۴۸۳) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ مال سے متعلقہ تمام حقوق ادا کرے اور حلال ذرائع سے مال جمع کرے، وگرنہ وہ اس وعید کا مستحق قرار پائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں بیان کی گئی وعید کا مطلب یہ ہو کہ ہمیں صدقہ و خیرات کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ایک دینار میں ساڑھے چار ماشے سونا ہوتا ہے۔