Blog
Books
Search Hadith

مال کی حرص کرنے سے ڈرانے کا بیان

۔ (۹۸۲۱)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَعْضِ جَسَدِیْ، فَقَالَ: ((یَاعَبْدَ اللّٰہِ! کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَاعْدُدْ نَفْسَکَ فِیْ الْمَوْتٰی۔)) (مسند احمد: ۴۷۶۴)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے جسم کے ایک حصے کو پکڑا اور فرمایا: اے عبدا للہ! دنیا میں ایسے ہو جا، جیسے تو اجنبییا مسافر ہے اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر۔
Haidth Number: 9821
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۸۲۱) تخریج: صحیح لغیرہ ، أخرجہ الترمذی: ۲۳۳۳، وابن ماجہ: ۴۱۱۴، وقولہ کن فی الدنیا کأنک غیریب او عابر سبیل أخرجہ البخاری: ۴۶۱۶ (انظر: ۴۷۶۴)

Wazahat

فوائد:… ذہن نشین رہے کہ یہ مثال اس دور میں پیش کی گئی جب سفر کرنے کا سب سے بڑا سبب اونٹ، گھوڑے، خچر اور گدھے تھے، یہ سواریاں دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مہینوں کی مسافتیں پیدل طے کرنا پڑتی تھیں۔ بحری سفر کرنے والے کشتیاںیا پانی میں نہ ڈوبنے والی کوئی چیز استعمال کیا کرتے تھے۔ دور دور کے سفروں میں سرائے اور ہوٹلوں کی سہولتیں دستیاب نہ تھیںیا بہت کم تھیں۔ مسافروں کو بعض سفروں میںپینے کا پانی بھی اپنے ہمراہ اٹھانا پڑتا تھا۔ پڑاؤ کے دوران چٹانوں، ریت اور مٹی پر سونا پڑتا تھا۔ پگڈنڈیوں، صحراؤں اور کچی سڑکوں پر مشتمل راستے ہوتے تھے، بلکہ بسا اوقات مسافروں کو راستہ بھی خود ایجاد کرنا پڑتاتھا۔ یہ انداز سفر اور طرزِ حیات عہدِ قدیم سے اس سائنسی دور، جس کی ابتدا تقریباً دو صدیاں پہلے ہوئی، تک جاری رہا۔ احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں مستقبل میں جس دور کی پیشین گوئی کیگئی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بالآخر یہ جدید دور ختم ہو جائے اور از سرِ نو پرانے والا دیسی زمانہ شروع ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ موجودہ ترقییافتہ دور میں ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں اور عمدہ لائنوں اور شاہراہوں پر ریل گاڑیوں، بسوں اور موٹر کاروں کے ذریعے سفر کرنے والے اور دورانِ سفر جگہ جگہ پر عمدہ ریسٹورینٹ، سرائے اور ہوٹلیں پانے والے اس مثال کی دقت اور مقصود کو نہ سمجھ پائیں۔ اگرچہ آج بھی مسافر تھوڑا سا سازو سامان اور معمولی نقدی کے ہمراہ سفر کرنے کا قائل ہے، ہر کوئی اپنے شہر تک پہنچنے کے لیے جلدی کرتا ہے، ایک سیٹ پر بیٹھنے والے مسافر ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہوتے، ہر مسافر دوسرے ہر فرد سے خوف اور وحشت محسوس کرتا ہے، ہر کسی کو ڈاکوؤں، چوروں اور حادثات کا خطرہ ستائے رکھتا ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر دورانِ سفر اچھے اور صاف ستھرے لباس ، وضع قطع اور میک اپ وغیرہ کرنے پر وہ توجہ نہیں دی جاتی، جس کا اہتمام حضر میں کیا جاتا ہے، بلکہ بعض خواتین و حضرات کو دیکھا گیا ہے کہ وہ سفر کے دوران حال و بے حال اور اپنے آپ سے تنگ ہوتے ہیں، لیکن جونہی ان کی منزل قریب آ رہی ہوتی ہے، وہ اپنے لباس اور جسم کو سنوارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حدیث ِ مبارکہ میں یہی نقطہ سمجھایا گیا کہ کسی مسافر کا دل سفر میں ، وہ جیسا بھی ہو، نہیں لگتا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پوری زندگی کو ایک دنیا کا ایک سفر سمجھیں اور اس سفر میں دل نہ لگائیں اور اس کو قرآن و حدیث کی ہدایات کے مطابق عبور کر کے اپنے اصلی وطن جنت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حافظ ابن حجرl نے کہا: اَوْ بمعنی بَلْ ہے، یعنی: دنیا میں اس طرح ہو جاؤ کہ گویا کہ تم اجنبی ہو، بلکہ مسافر ہو۔ یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عابد و زاہد کو پہلے اس اجنبی اور پردیسی سے تشبیہ دی، جس کی کوئی جائے پناہ اور گھر نہیں ہوتا، پھر بات کو آگے بڑھایا اور مسافر سے تشبیہ دی، کیونکہ بسا اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ اجنبی آدمی کو پر دیس میں رہائش کے لیے کوئی نہ کوئی گھر مل ہی جاتا ہے، لیکن جس مسافر نے دور دراز علاقوں کا سفر طے کرنا ہو، جبکہ اس کے راستے میں ہلاکت گاہ وادیاں، بے آب و گیاہ مہلِک صحرا اور ڈاکو اور چور بھی ہوں، تو اس کی صورتحال یہ ہو گی کہ وہ دورانِ سفر کہیں بھی لمحہ بھر کے لیے قیام نہیں کرے گا، اسی لیے سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہا کرتے تھے: اگر شام ہو جائے تو صبح کی انتظار نہ کیا کر اور اگر صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کیا کر اور بیماری کے لیے اپنی صحت میں سے اور موت کے لیے اپنی زندگی میں سے کچھ لے لے۔ نیز وہ یہ بھی کہا کرتے تھے: اپنے آپ کو قبرستان والے مردوں میں شمار کر۔ معنییہ ہوا: اے مسافر! چلتا رہ اور سست نہ پڑ، اگر تو نے سستی کی توراستے میں ہی رہ جائے گا، مہلک وادیوں میں ہلاک ہو جائے گا (اور اپنی منزل مقصود تک نہ پہنچ پائے گا)۔ ابن بطال نے کہا: اجنبی اور پردیسی آدمی دوسرے لوگوں سے بے تکلفی اختیار نہیں کرتا، بلکہ وہ ان سے وحشت زدہ ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو کم تر اور خوفزدہ محسوس کرتا ہے۔ مشکل ہی ہے کہ دورانِ سفر اسے کوئی ایسا آدمی مل جائے، جس سے وہ مانوس ہو جائے۔ یہی معاملہ مسافر کا ہے کہ وہ اپنی قوت و طاقت کے مطابق سفر پر روانہ ہوتا ہے، اپنے ساتھ کم سے کم وزن والا سامان لے کر جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس اتنا زادِ راہ اور سواری ہونی چاہیے کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے۔ (یہی معاملہ مومن کا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ بے تکلفی اختیار نہ کرے، اس سے زیادہ مانوس نہ ہو، اس کے پاس اتنا زادِ راہ اور سامانِ دنیا ہونا چاہیے کہ کسی کے سامنے دست ِ سوال پھیلائے بغیر دنیا کے ایام بیت جائیں)۔ اس مثال سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنی چاہیے اور گزر بھر، ضرورت بھر اور بقدر کفاف چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جس طرح مسافر کوصرف اتنے ساز و سامان اور زادِ راہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس سے اس کا سفر طے ہو جائے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے، اسی طرح مومن کو اتنے دنیوی سازو سامان کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اس کی دنیا کا سفر طے ہو جائے۔ دوسرے شارحین نے کہا: یہ حدیث دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنے، اس کو حقیر سمجھنے اور اس میں ضرورت بھر اسبابِ زندگی پر قناعت کرنے کی بنیاد ہے۔ امام نووی نے کہا: اس حدیث کا معنییہ ہے کہ دنیا کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرو، اس کو اپنا (مستقل) وطن نہ سمجھو ، اس میںاپنی بقا کے بارے میں مت سوچو اور اس سے اتنا تعلق رکھو، جتنا کہ کسی دوسرے وطن میں پردیسی آدمی کا ہوتا ہے۔ بعض نے کہا: مسافر اپنے وطن تک پہنچنے کے لیے راستے پر چل رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں بندہ بھی اس آدمی کی طرح ہے، جس کو اس کے آقا نے کسی حاجت کے لیے دوسرے وطن میں بھیجا ہو، اس کی صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ حاجت پوری کر کے اپنے وطن کی طرف لوٹنے میں جلدی کرتا ہے اور کسی دوسری غیر متعلقہ چیز میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا، (یہی معاملہ مومن کا ہے کہ اس کے آقا یعنی ربّ تعالیٰ نے اسے دنیا میں توشۂ آخرت کی تیاری کے لیے بھیجا، اسے چاہیے کہ اپنی زندگی کے دورانیے میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال ذخیرہ کرے اور پھر یہاں سے روانہ ہو کر اپنے آقا کے پاس پہنچ جائے)۔ کسی نے کہا: اس حدیث کا مرادی معنییہ ہے کہ جس طرح پردیسی آدمی غیر وطن میں عارضی سکونت اختیار کرتا ہے،اپنے مقصد کی تکمیل کی کوشش میں رہتا ہے اور اس کا دل اپنے وطن کے ساتھ معلّق رہتا ہے اور واپس جانے کی سوچتا رہتا ہے۔ یہی معاملہ مومن کا ہے کہ وہ دنیا میں آخرت کی ضروریات پوری کرنے اور اپنے اصل وطن (جنت) کی طرف لوٹ جانے کی سوچ میں رہے۔ یا جس طرح مسافر کسی سرائے میں مستقل سکونت اختیار نہیں کرتا، بلکہ اپنے شہر پہنچنے کے لیے سفر جاری رکھتا ہے، اسی طرح مومن دنیا میں اپنے وطن جنت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اعمال صالحہ کا سفر جاری رکھتا ہے۔ (فتح الباری: ۱۱/ ۲۸۱) اللہ تعالیٰ شارحین احادیث ِ نبویہ کی مساعی ٔ جمیلہ قبول فرمائے اور ان پر رحمت نازل فرمائے۔ (آمین)