Blog
Books
Search Hadith

محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت کی عمروں کا بیان

۔ (۹۸۳۰)۔ (وَمِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) عَنْ مُجَاھِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَیْضًا، قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالشَّمْسُ عَلٰی قُعَـْیقِعَانَ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: ((مَااَعْمَارُکُمْ فِیْ اَعْمَارِ مَنْ مَضٰی، اِلَّا کَمَا بَقِیَ مِنَ النَّھَارِ فِیْمَا مَضٰی مِنْہِ۔)) (مسند احمد: ۵۹۶۶)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، جبکہ سورج عصر کے بعد قعیقعان پہاڑ پر تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پہلے گزر جانے والے لوگوں کی عمروں کی بہ نسبت تمہاری عمر اتنی ہے، جتنا دن کا حصہ باقی ہے، گزر جانے والے حصے کی بہ نسبت۔
Haidth Number: 9830
Report
Create Picture for Post

Reference

Status

Authentic

صحیح

Status Reference

Not Available

Takhreej

(۹۸۳۰) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول

Wazahat

فوائد:… پہلی امتوں کے افراد طویل طویل عمریں پاتے تھے، نوح علیہ السلام کی تبلیغ کا عرصہ (۹۵۰) برس ہے۔ ان کی بہ نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت کے لوگوں کی عمریں کم ہیں، ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((أَعْمَارُ أُمَّتِيْ مَابَیْنَ السِّتِّیْنَ إِلَی السَّبْعِیْنَ، وَأَقَلُّھُمْ مَنْ یَّجُوْزُ ذٰلِکَ۔)) … فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہیں، کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اس حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ (ترمذی: ۲/۲۷۲، ابن ماجہ: ۴۲۳۶) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت کے زیادہ تر افراد کی عمریںیہی رہی ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود (۶۳) برس کی عمر میں دنیائے فانی سے روانہ ہو گئے تھے، بہت کم شخصیات نے ان عمروں سے تجاوز کیا ہے،مثلا صحابۂ کرام میں سیدہ اسما بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے (۱۰۰) سال، سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (۱۰۳) سال، سیدنا حسان بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (۱۲۰) سال اور سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (۲۵۰) سال عمر پائی۔ اب بھی اس طرح کی لمبی عمر پانے والے افراد بہت کم ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت کو کم عمری کا یہ صلہ دیا ہے کہ ان کو ایسی عبادات عطا کر دی ہیں، جن کے ذریعے مختصر مدت میں بلند درجات حاصل کیے جا سکتے ہیں، درج ذیل دو مثالوں پر غور کریں: (۱)سیدنا اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَغَسَّلَ وَبَکَّرَ وَابْتَکَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ کَانَ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍیَخْطُوہَا أَجْرُ سَنَۃٍ صِیَامِہَا وَقِیَامِہَا۔)) … جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور (سر کو) اچھی طرح دھویا اور مسجد میں جلدی گیا، امام کا ابتدائی خطبہ پایا اور امام کے نزدیک ہو کر خطبہ سنا اور اس دوران خاموش رہا تو اس کو ہر ہر قدم پر ایک ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ملے گا۔ (ترمذی: ۴۵۶) (۲) اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر میں شب ِ قدر کے قیام کو ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قراردیا، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس سورت کے نزول کے بارے میں درج ذیل روایات پیش کی ہیں، ان روایات کو تحقیق کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے: امام مجاہد کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کی راہ میںیعنی جہاد میں ہتھیار بند رہا، مسلمانوں کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتار دی کہ ایک شب ِ قدر کی عبادت اس شخص کی ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے، ابن جریر میں ہے: بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو رات کو قیام کرتا تھا صبح تک اور دن میں شام تک دشمنانِ دین سے جہاد کرتا تھا،ایک ہزار مہینے تک یہی عمل کرتا رہا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ اس امت کے کسی شخص کا صرف لیلۃ القدر کا قیام اس عابد کی ایک ہزارمہینے کی اس عبادت سے افضل ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنی اسرائیل کے چار عابدوں کا ذکر کیا، جنہوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی، ایک نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی تھی: ایوب، زکریا، حزقیل بن عجوز اور یوشع بن نونh، اس سے صحابۂ کرام کو بڑا تعجب ہوا، اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد!آپ کی امت نے اس جماعت کی اس عبادت پر تعجب کیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی افضل چیز آپ پر نازل فرمائی اور کہا کہ یہ چیزاس سے افضل ہے جس پر آپ اور آپ کی امت نے تعجب ظاہر کیا تھا، پس محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ بیحد خوش ہوئے، (یہ چیز شب ِ قدر تھی)، امام مجاہد کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ اس رات کا نیک عمل اس کا روزہ اس کی نماز ایک ہزارمہینوں کے روزے اور نماز سے افضل ہے، جن میں لیلۃ القدر نہ ہو اور مفسرین کا بھییہ قول ہے امام ابن جریر نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار مہینے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو، یہی ٹھیک ہے، اس کے سوا اور کوئی قول ٹھیک نہیں۔